انصاف جب انتقام بن جاتا ہے تو اپنے کردار سے محروم ہوجاتا ہے

,

   

فوری انصاف ممکن نہیں ، حالیہ واقعات سے پرانی بحث نئی شدت کیساتھ چھڑ چکی ہے ، چیف جسٹس آف انڈیا بوبڈے کا خطاب
جودھپور۔ 7 ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) حیدرآباد میں خاتون ویٹرنری ڈاکٹر کی اجتماعی عصمت ریزی، قتل اور نعش کو جلانے والے چار ملزمین کی مبینہ انکاؤنٹر میں پولیس کے ہاتھوں گولی مارکر ہلاک کئے جانے کے واقعہ کے پس منظر میں چیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بابڈے نے ہفتہ کو کہا کہ انصاف کبھی بھی فی الفور نہیں ہوسکتا اور جب وہ انتقام بن جاتا ہے تو اپنے کردار سے محروم ہوجاتا ہے، تاہم اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ ملک میں پیش آنے والے اس قسم کے حالیہ واقعات پر پرانی بحث ایک نئی شدت کے ساتھ دوبارہ چھڑ چکی ہے، جہاں اس بات پر کوئی شک نہیں ہے کہ فوجداری نظام انصاف کو اپنے موقف پر انصاف کو ایک مقدمہ کی یکسوئی کیلئے درکار وقت اور اس کے تئیں رویہ اور اس کے موقف پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے راجستھان ہائیکورٹ کی نئی عمارت کے افتتاح کے دوران اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ’’لیکن میں نہیں سمجھتا کہ انصاف کبھی فی الفور (مقام واردات پر ہی) کیا جاسکتا ہے اور انصاف کو کبھی بھی انتقام کی شکل اختیار نہیں کرنی چاہئے۔ میرا یقین ہے کہ انصاف اس وقت اپنے کردار سے محروم ہوجاتا ہے جب کبھی وہ انتقام کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بابڈے کے ان ریمارکس سے ایک دن قبل حیدرآباد پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شہر کے مضافات میں ایک جواں سال خاتون ویٹرنری ڈاکٹر کی اجتماعی عصمت ریزی اور قتل کے تمام ملزمین اس وقت پولیس اہلکاروں کی جوابی فائرنگ میں ہلاک ہوگئے جب ان کے منجملہ دو نے پولیس سے اسلحہ چھین کر فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہونے کی کوشش کررہے تھے۔

یہ واقعہ دوران تحقیقات واردات کے تمثیلی اعادہ کے دوران پیش آیا تھا۔ وزیر قانون روی شنکر پرساد نے اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا اور دیگر سینئر ججوں سے درخواست کی کہ وہ عصمت ریزی کے مقدمات کی بہ عجلت ممکنہ یکسوئی کی نگرانی کیلئے ایک میکانزم کو یقینی بنائے۔ روی شنکر پرساد نے کہا کہ ملک کی خواتین اس وقت شدید دکھ درد میں مبتلا ہیں اور انصاف کیلئے پکار کررہی ہیں۔ وزیر قانون نے کہا کہ اس قسم کے وحشیانہ و سفاکانہ جرائم سے متعلق مقدمات کی یکسوئی کیلئے 704 فاسٹ ٹریک عدالتیں موجود ہیں اور حکومت، عصمت ریزی کے علاوہ نابالغ و کمسن بچوں پر جنسی مظالم کے انسداد کیلئے 1,123 عدالتوں کے قیام کے عمل میں مصروف ہے۔ خواتین پر تشدد سے متعلق قوانین میں سزائے موت پہلے ہی شامل کی جاچکی ہے۔ علاوہ ازیں اندرون دو ماہ مقدمہ کی سماعت کے ساتھ سخت سے سخت سزائیں دینے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ چیف جسٹس بوبڈے نے کہا کہ ’’اگرچہ کئی سطحوں پر مختلف اقدامات ضرور کئے جارہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہمیں عدلیہ کے بارے میں قیاس اور تبدیلیوں سے بھی باخبر رہنا چاہئے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایک ایسے واقعہ میں جس کی ہندوستانی عدلیہ کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ، 12 جنوری 2018ء کو سپریم کورٹ کے ججوں جسٹس جے چیلمیشور ، جسٹس رنجن گوگوئی ، جسٹس ایم بی لوکور اور جسٹس جوزف کورین نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کی عدالت عظمی کی ’’حالت ٹھیک نہیں ہے‘‘ اور کئی ’’خواہش اور پسندیدگی سے بہت ہی کم سطح کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ جسٹس بابڈے نے کہا کہ ’’میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ادارہ (عدلیہ) کو اپنے آپ کی اصلاح کرنا چاہئے اور بلاشبہ اس نے ایسا اس وقت کیا بھی تھا جب شدید مذمت کردہ پریس کانفرنس منعقد کی گئی تھیں۔ یہ خود اصلاحی اقدام سے کچھ زیادہ نہیں تھا اور میں اس کو منصفانہ قرار دینا نہیں چاہتا۔ میں اس کو منصفانہ قرار دینے کی خواہش نہیں رکھتا۔