انڈیا میں بدامنی پھیلانے فنڈنگچین کے خلاف کارروائی سے مودی حکومت کا پس و پیش

   

سدھارتھ وردھاراجن
آج کل نیوز کلک اور اس کے بانی پربیرپرکائستھ کے خلاف دہلی پولیس کی کارروائی کو لیکر انصاف پسند لوگوں میں کافی تشویش پائی جاتی ہے ۔ پولیس نے دشمن ملک چین کی کمپنیوں سے مودی حکومت کو بدنام کرنے کیلئے کروڑہا روپئے کی رقم حاصل کرنے جیسے سنگین الزامات عائد کئے ہیں اور اس ضمن میں تقریباً 50 آزاد صحافیوں ، حقوق انسانی کے جہدکاروں ، دانشوروں کے مکانات پر چھاپہ بھی مارے ہیں ۔ یہی نہیں پولیس نے نیوز کلک اور پربیرپرکائستھ پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا ہے یعنی یو اے پی اے جیسے سیاہ قانون کے تحت ان کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ہیں ۔ اب یہ سوال کیا جارہا ہے کہ آیا مودی حکومت نے امریکی شہری نیول رائے سنگھم کے خلاف کارروائی کرنے یا اسے ہندوستان کے حوالے کرنے کی امریکی حکومت سے درخواست کی ہے کیونکہ دہلی پولیس نے اس کی نیوز کلک کو کئی گئی فنڈنگ کو دہشت گردی کاجرم قرار دیا ہے ۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 17 اگسٹ 2023 میں بھی دہلی پولیس نے ایک ایف آئی آر درج کی تھی جس میں دعوی کیا گیا تھا کہ دہلی پولیس نے نیوز کلک کے بانی پرکائستھ کے بے شمار ای میلس پیغامات کے تجزیہ کے بعد درج کی گئی ۔ اگر نیول رائے سنگھم نے ہندوستان میں چینی عزائم کی تکمیل کیلئے اور یہاں بے چینی پیدا کرنے کیلئے نیوز کلک کو فنڈس فراہم کئے تو پھر ہماری حکومت نے اس کیس میں ایف آئی آر درج ہونے سے پہلے یا بعدمیں سنگھم سے پوچھ تاچھ کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی ؟ حالانکہ پولیس نے اس کیس میں سنگھم کو ملزم نمبر 3 بنایا ہے ۔ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر نیول رائے سنگھم ہندوستان میں بے چینی بدامنی پیدا کرنے نیوز کلک کو فنڈس فراہم کرتا رہا ہے تو کیا مودی حکومت پیرس میں واقع فینانیشل ایکشن ٹاسک فورس ( ایف اے آئی ایف ) کی سکریٹریٹ کو اس بارے میں آگاہ کیا کہ نیول رائے سنگھم اور اس کی کمپنیاں دہشت گردانہ کارروائیوں کیلئے مالیہ کی فراہمی میں ملوث ہیں تاکہ عالمی سطح پر حکومتیں سنگھم اور اس کی کمپنیوں کے خلاف کارروائی کرسکیں ۔ حکومت ہند سے ایک اور سوال کیا جارہا ہے کہ آیا اس نے سنگھم اور سنگھم کی کمپنیوں کے خلاف انٹرپول سے رجوع ہو کر ریڈ کارنر نوٹسیں جاری کرنے کی درخواست کی ؟ ۔ دہشت گردی کا جہاں تک سوال ہے ہماری حکومت کچھ عرصہ سے پاکستان کو دہشت گردی کیلئے مالیہ کی فراہمی کے الزامات کے تحت فینانیشل ایکشن ٹاسک فورس کے کٹہرے میں لاکھڑا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن چین کے معاملہ میں ایسا نہیں کیا اس کی کیا وجہ ہے یہ بھی لوگ جاننے کے مشتاق ہیں ۔ دہلی پولیس بار بار نیوز کلک کے ذریعہ ہندوستان میں چینی کمپنیوں کے دریعہ ٹیررفنڈنگ کے الزامات عائد کرتی جارہی ہے ۔ لیکن یہاں سب سے اہم اور بڑا سوال یہ ہیکہ مودی حکومت کا اس معاملہ میں سرکاری موقف کیا ہے ؟ حکومت ہند کا سرکاری موقف یہ ہیکہ چینی کمیونسٹ پارٹی اور اس کے تحت کام کرنے والی چینی حکومت کیا ہندوستان میں دہشت گردی کی سرپرستی اور اس کی حوصلہ افزائی کررہی ہے ؟ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ دہلی پولیس مرکزی وزارت داخلہ کے تحت کام کرتی ہے اور اسے رپورٹ بھی کرتی ہے جب وہ چینی کمیونسٹ پارٹی پر ہندوستان میں چینی کاری ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کیلئے غیرقانونی و ناجائز فنڈنگ کا الزام عائد کررہی ہے ( خاص طور پر کشمیر اور اروناچل پردیش کی حیثیت کے سوال پر ) تو ایسے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری حکومت کا خیال ہیکہ چین ہندوستان میں دہشت گردی اور غیر قانونی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کررہا ہے۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ قومی تحقیقاتی ایجنسی (NIA) اور دہلی پولیس کی خصوصی سیل ان ہندوستانی کمپنیوں کے خلاف یو اے پی اے اور منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع کررہی ہے جنہوں نے گزشتہ دس برسوں میں راست یا بالواسطہ طور پر چینی فنڈ حاصل کیا ( اپوزیشن بار بار یہ الزام عائد کررہی ہے کہ پی ایم فنڈ میں چینی کمپنیوں سے فنڈس حاصل کئے گئے ) یہ بھی سوال گردش کررہا ہے جس طرح حکومت ہند نے کینڈین حکومت سے خالصتان کے حامیوں کے خلاف کارروائی کی درخواست کی اسی طرح شنگھائی کے باشندہ سنگھم کے خلاف چینی حکومت کو کارروائی کیلئے لکھا ہے ؟ یہ بھی اہم سوال ہیکہ کیا ہندوستان سنگھم کو حوالہ نہ کرنے پر حکومت چین کے خلاف سخت کارروائی کیلئے تیار ہے ؟ مودی حکومت سے یہ بھی سوال کیا جارہا ہے کہ وہ ہندوستان میں کام کررہی چینی کمپنیوں شاومی اور وی ووی VIVO کو ملک بدر کردے گی حد تو یہ ہیکہ کئی ایک مرکزی وزراء نے ان کمپنیوں کا خیرمقدم کیا ہے ۔ بہرحال مودی حکومت فی الوقت کئی سوالات کے گھیرے میں ہے ۔ ( نوٹ : مضمون نگار کے خیالات سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں )