اولمپکس میڈلس اور رام مندر

   

آدتیہ مینن
اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ اُترپردیش کے مجوزہ اسمبلی انتخابات کیلئے رام مندر ہی بی جے پی کے اصل موضوع کے طور پر ابھر رہی ہے اور پچھلے ایک ہفتہ کے دوران خاص طور پر ایسا دیکھا بھی گیا۔ ایک طرف وزیراعظم نریندر مودی نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان کو 5 اگست کو ہی اولمپکس ہاکی میں برانز میڈل حاصل ہوا۔ (41 سال بعد ہندوستانی ہاکی ٹیم نے کوئی میڈل حاصل کیا ہو) رام مندر بھومی پوجن کا انعقاد عمل میں آیا۔ کشمیر کو آرٹیکل 370 کے تحت حاصل خصوصی موقف بھی۔ 5 اگست کو ختم کیا گیا۔ غرض وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ یہ تمام واقعات 5 اگست کو پیش آئے۔
وزیراعظم نریندر مودی نے مذکورہ تین واقعات کا جو حوالہ دیا اگرچہ ایک دوسرے سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ خاص طور پر حکومت کا ٹوکیو اولمپکس کے ہاکی مقابلوں میں ہندوستانی جیت سے کچھ لینا دینا نہیں ہے لیکن مودی نے اپنے قوم سے متعلق ایک بیان یا موقف کے ایک حصہ کے طور پر پیش کیا۔ پھر دوسری طرف 5 اگست کو چیف منسٹر اترپردیش یوگی آدتیہ ناتھ نے بھومی پوجن کی پہلی سالگرہ کے موقع پر گزشتہ ہفتہ ایودھیا میں رام مندر کا دورہ کیا۔ اپنے دورہ ایودھیا کے دوران یوگی آدتیہ ناتھ نے یہ کہتے ہوئے صدر سماج وادی پارٹی اکھیلیش یادو پر شدید تنقید کی کہ اب رام مندر وہاں تعمیر ہورہی ہے جہاں ان کے والد ملائم سنگھ یادو نے کہا تھا کہ وہ کسی کو بھی اس کے قریب آنے نہیں دیں گے۔ یہاں تک کہ یوگی نے سابق چیف منسٹر یوپی ملائم سنگھ یادو کا اکھیلیش کے ’’ابا جان‘‘ کے طور پر حوالہ دیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ آدتیہ ناتھ کس طرح فرقہ واریت کا مظاہرہ کررہے ہیں اور اُن کے ذہن و قلب میں ملائم سنگھ یادو اور اکھیلیش یادو کے تئیں کس شدت کی نفرت پائی جاتی ہے۔ ہم بات کررہے تھے کہ مجوزہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کیلئے رام مندر کارڈ کھیلنا بہت ضروری ہے اور یہ کیوں ضروری ہے۔ اس کی دو اہم وجوہات ہیں۔ ایک تو یوگی حکومت کی شبیہ عوام میں بگڑ گئی ہے۔ عوام یوگی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ خاص طور پر کورونا وباء سے نمٹنے میں اس کی ناکامی عوام کیلئے پریشانیوں کا باعث بنی۔ یوگی حکومت کی بھیانک غفلت و لاپرواہی کے نتیجہ میں ہزاروں کی تعداد میں اترپردیش کے لوگ مارے گئے۔ بے شمار نعشوں کو گنگا میں بہا دیا گیا۔ ہزاروں نعشیں گنگا کنارے ریت میں دبا دی گئیں۔ یوگی کا جہاں تک تعلق ہے، چیف منسٹر اُترپردیش کی حیثیت سے وہ عوام کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے والی شخصیت ہے۔ وہ اترپردیش میں بی جے پی کے اہم ہندوتوا بنیاد کو مستحکم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور کوئی ایسا دن نہیں گزرتا جس میں انہوں نے مسلمانوں کے خلاف کوئی تبصرہ نہ کیا ہو یا پھر کوئی بیان نہ دیا ہو۔ یوگی حکومت کے بارے میں عوام بے شمار مسائل کو لے کر غیرمطمئن ہے۔ مثال کے طور پر کورونا وباء سے لے کر روزگار کی فراہمی میں ناکامی یوگی کے خلاف عوامی ناراضگی و برہمی کا باعث بنی ہے۔ ساتھ ہی عوام کے کئی گوشے مثلاً اور سرکاری اساتذہ بھی یوگی حکومت کے شدید خلاف ہوسکتے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے خیال میں یوپی میں عام طور پر حکومت کے خلاف عوامی لہر پائی جاتی ہے، بالخصوص کورونا وائرس کی دوسری لہر کے بعد عوام اور اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اگر یوگی حکومت موثر اقدامات کرتی تو اموات کی تعداد میں کافی حد تک کمی ہوسکتی تھی۔
وہ اترپردیش میں بی جے پی کا یہ حال نہیں بلکہ حال ہی جن ریاستوں کے اسمبلی انتخابات ہوئے، وہاں بی جے پی کو شکست کھانی پڑی۔ ان حالات میں بی جے پی کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ رام مندر ہی اسے عوام کی مخالف لہر سے بچا سکتی ہے اور وہ مندر کے نام پر عوام کی برہمی کو دُور کرسکتی ہے۔ موجودہ مخالف رجحان کو ختم کرنے میں ایودھیا میں رام مندر بی جے پی کیلئے اہم میکانزم ہے اور اسی میکانزم کے بل بوتے پر وہ عوام میں پائی جانے والی برہمی و ناراضگی کو دور کرسکتی ہے۔ بی جے پی کو خود اچھی طرح اندازہ ہے کہ ہندو رائے دہندوں کی ایک اچھی خاصی تعداد اس سے ناراض ہے۔ ان حالات میں رام مندر جیسے جذباتی موضوعات ہی اس کی بقاء کو یقینی بناسکتے ہیں۔ ایک ایسا گوشہ بھی ہے جس کا جذبہ یہی ہے کہ کم از کم ایک ووٹ کو رام مندر کے نام پر دیا جاسکتا ہے۔ اسی جذبہ پر بی جے پی تکیہ کئے ہوئے ہے اور چاہتی ہے کہ اس جذبہ کا پورا پورا فائدہ اُٹھایا جائے۔ اسے امید ہے کہ رام مندر کا جذبہ ہر منفی پہلو پر قابو پالے گا۔
اب دوسری وجہ کی طرف چلتے ہیں۔ بی جے پی نے 2017ء کے اسمبلی انتخابات میں جو کامیابی حاصل کی، وہ زیادہ تر اختراعی سوشیل انجینئرنگ کا نتیجہ تھی جس کے باعث ہی اعلیٰ ذات، غیریادو او بی سی اور غیرجاٹ دلت رائے دہندے متحد ہوئے تھے، تاہم یہ اتحاد ایک مخدوش اتحاد کی طرح ہے اور اگر حکومت مخالف ماحول ہے تو دلت ووٹوں او بی سی اور یہاں تک کہ اعلیٰ ذات کے رائے دہندوں کا ایک چھوٹا سا حصہ بی جے پی سے دور ہوسکتا ہے۔ ویسے بھی بی جے پی سے جاٹ بھی ناراض ہیں اور اس کی وجہ کسان بلز ہیں۔ کسان مودی حکومت کی جانب سے منظور کردہ تین زرعی قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ مغربی اترپردیش میں نیشکر کے کسانوں میں بھی مودی اور یوگی حکومت سے ناراضگی پائی جاتی ہے۔ حال ہی میں کئے گئے اوپینین پولس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اترپردیش دو جماعتی سیاست کی جانب بڑھ رہی ہے۔ بی ایس پی اور کانگریس کا اثر کسی قدر کم ہورہا ہے اور ایس پی کا اثر بڑھتا جارہا ہے۔
اب تو اترپردیش میں مودی بمقابلہ یوگی کا مسئلہ بھی چھڑ گیا ہے، یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ ہندوتوا فیملی میں کسے رام مندر کی تعمیر کے ہیرو کے طور پر دیکھا جائے گا۔ مودی کو یا پھر یوگی کو ۔ماضی میں مندر کے مسئلہ پر بے شمار سیاست دانوں نے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ راجیو گاندھی نے اپنی انتخابی مہم ایودھیا سے شروع کی تھی اور مسجد کے تالے ان کی میعاد میں ہی کھولے گئے۔ ایل کے اڈوانی نے اپنی رام رتھ یاترا کے ذریعہ رام جنم بھومی تحریک کو ایک قومی تحریک میں تبدیل کردیا تھا۔ (ہندوتوا طاقتوں کیلئے) کلیان سنگھ، پی وی نرسمہا راؤ، چیف منسٹر اور وزیراعظم جن کی ناک کے نیچے بابری مسجد شہید کی گئی تھی اور آخر میں مودی اور یوگی جن کی حکومتوں میں مندر کی تعمیر شروع ہوئی۔ سب اس مسئلہ سے فائدہ حاصل کرنے والوں میں شامل ہیں۔ مودی نے پہلے ہی اڈوانی کو رام مندر کے ہیرو کی حیثیت سے ہٹا دیا۔ اگرچہ یہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا نتیجہ تھا۔ ووٹرس نے ایک سروے کیا جس میں 23.7 رائے دہندوں نے سپریم کورٹ فیصلہ کو دوسری میعاد میں مودی کا سب سے بڑا کارنامہ قرار دیا۔ 47% نے کشمیر کو حاصل رہی خصوصی دفعہ 370 کی منسوخی کو مودی کا سب سے بڑا کارنامہ قرار دیا۔
دوسری طرف یوگی ایودھیا کے متواتر دورے کررہے ہیں۔ رام مندر کی تعمیر کی نگرانی کے بہانے انہوں نے ضلع فیض آباد کا نام تبدیل کرکے ضلع ایودھیا رکھ دیا ہے۔ یوگی بہت ہشیار ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر مودی، اڈوانی جیسے شخص کو رام مندر کے ہیرو کے مقام سے ہٹا سکتے ہیں تو پھر وہ بھی کچھ کوشش کے ذریعہ اپنی وراثت Legacy) (قائم کرسکتے ہیں۔