اُمت پراصلاح و تبلیغ کی ذمہ داری

   

تشکر، اخلاق حمیدہ میں ایک بہترین اخلاق ہے اور ہر انسان جس میں ذرہ برابر بھی انسانیت ہوگی، وہ ضرور اس صفت سے متصف ہوگا۔ اس کے برخلاف ناشکری نہ صرف ایک بداخلاقی ہے، بلکہ انتہائی کمینگی ہے۔ کسی نے ہم پر کوئی احسان کیا ہو تو ہم فطری طورپر اس کے شکر گزار ہوتے ہیں۔ اس کے احسان کا اعتراف کرنا اور اس کے ممنون رہنا، اعلیٰ اخلاق کی علامت ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم پر بالخصوص اور پورے عالم انسانیت پر بالعموم جو احسانات فرمائے ہیں، ان کا شمار کرنا ایک مشکل کام ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم پر جو احسانات ہیں، وہ ناقابل فراموش ہیں۔ زندگی بھر آپﷺ نے تکلیفیں اٹھائیں، کس کے لئے؟، ہمارے لئے۔ وطن سے بے وطن ہوئے، کس کے لئے؟، ہمارے لئے۔ ہماری خیر، ہماری صلاح، ہماری فلاح، ہمیشہ آپﷺ کے پیش نظر رہی۔ ہم سے آپ نے بے پناہ محبت کی، بے لوث محبت کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی غرض ہم سے کبھی وابستہ نہیں رہی۔ اس دنیا سے رحلت کے وقت بھی آپﷺ کی زبان مبارک پر ’’امتی امتی‘‘ تھا۔ آپﷺ کو اللہ تعالی نے خیر کثیر سے نوازا تھا۔ آپﷺ پر اللہ تعالی کے جو انعامات ہوئے، ہم ان کا تصور تک نہیں کرسکتے۔ آپ کو ہم سے کسی چیز کی ضرورت نہیں تھی، ہم سے کبھی آپﷺ نے اپنی محبت کا اور اپنی خدمات کا صلہ نہیں مانگا۔ بادشاہت کو ٹھکراکر آپﷺ نے راہ فقیری اختیار کی۔ گھر میں کئی کئی دن چولھا نہیں جلتا تھا۔ پیٹ پر پتھر باندھے، فاقہ کئے۔ کیا ہم آپﷺ کے احسانات کا بدلہ چکا سکتے ہیں؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ ہم صرف آپﷺ کے شکرگزار ہوسکتے ہیں اور ہمیں شکر گزار ہی ہونا اور رہنا چاہئے۔

شکر صرف دو طرح سے ادا ہوسکتا ہے، ایک عملی اور دوسرا لسانی۔ اس کے علاوہ شکرگزاری کا کوئی اور طریقہ مجھے نہیں معلوم۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا شکر بھی ہم ان ہی دو طریقوں سے ادا کرسکتے ہیں۔ اپنے عمل سے ثابت کریں کہ ہم واقعی حضور کے شکر گزار ہیں۔ دوسرے زبان سے بھی ہم آپﷺ کے احسانات کا شکر ادا کریں۔ میں نے ذکر کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، بے غرض اور بے لوث تھی، کبھی ہم سے آپﷺ نے اپنی محبت کا صلہ نہیں چاہا، کبھی آپﷺ نے ہم سے اپنے احسان کا بدلہ نہیں مانگا۔ ہاں، ایک فرمائش ضرور کی ہے اور وہ فرمائش بھی اپنے لئے نہیں، ہمارے ہی لئے۔ اس میں ہماری ہی صلاح و فلاح مضمر ہے اور وہ فرمائش یہ ہے کہ آپﷺ زندگی بھر جو کام کرتے رہے، جس مقصد کے لئے آپﷺ نے زندگی وقف کر رکھی تھی، آپ کے اوقات کا ایک ایک لمحہ جس کام کے لئے وقف تھا، جو آپﷺ کی زندگی کا واحد مشن تھا، اس کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا: ’’جو میرا مشن تھا، اب اس مشن کو تم آگے بڑھاؤ، جو کام میں کرتا رہا اب تم یہ کام کرو، میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، میں آخری نبی ہوں، جو ذمہ داری میرے کندھوں پر تھی، وہ ذمہ داری میں تمھیں سونپتا ہوں۔ اب یہ ذمہ داری تم سنبھالو، خدا کا جو پیغام اس کے بندوں تک میں پہنچاتا رہا ہوں، اب یہ پیغام تم اس کے بندوں تک پہنچاؤ۔ اب تم میں سے ہر شخص میرا نائب ہے، میرا سفیر ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس فرمائش، اس وصیت کا اصطلاحی نام ’’تبلیغ‘‘ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق ہم اس فرض کو اگر انجام دیں تو یہ حضور کا عملی تشکر ہوگا اور اگر ہم یہ فرض انجام نہیں دیتے اور آپﷺ کی اس وصیت کو پورا نہیں کرتے تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ہم عملاً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ناشکرگزار اور ناسپاس ہیں۔
تبلیغ کے دو میدان ہیں، ایک مسلمانوں میں تبلیغ اور دوسرے غیر مسلموں میں تبلیغ۔ مسلمانوں میں تبلیغ دراصل اصلاح بین المسلمین ہیں، جس کو عرف عام میں تبلیغ کہا جانے لگا ہے۔ غیر مسلموں میں تبلیغ ہی اصل تبلیغ ہے اور قرآن کی اصطلاح میں اسی کو تلاوت آیات کہا جاتا ہے۔ ’’یتلوا علیہم اٰیاتہٖ‘‘ سے یہی تبلیغ مراد ہے۔ بہرحال تبلیغ ہو یا اصلاح بین المسلمین، دونوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر قدر مشترک ہے اور اسی اشتراک کی وجہ سے لوگ اصلاح اور تبلیغ، دونوں کے لئے تبلیغ کا لفظ استعمال کرلیتے ہیں۔ اصلاح اور تبلیغ کے طریقے ذرا الگ الگ ہیں، ایک کو دوسرے کے ساتھ گڈ مڈ نہیں کرنا چاہئے، تاہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی تشکر کے لئے ہمیں ان دونوں میدانوں میں کام کرنا ہوگا، یعنی اصلاح بین المسلمین بھی اور تبلیغ بین غیر المسلمین بھی۔ اس کے بغیر ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی شکرگزار نہیں بن سکتے، کیونکہ آپﷺ کے مشن کے لئے کام کرنا ازحد ضروری ہے۔
سب سے پہلے یہ دیکھئے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ فرمائش کہ ’’آپﷺ کے مشن کے لئے کام کیا جائے‘‘۔ یہ صرف آپﷺ کی فرمائش ہی نہیں ہے، بلکہ یہ حکم خداوندی بھی ہے، جیسا کہ ارشاد ہوا ہے: ’’تم کو ایک ایسی امت ہونا چاہئے، جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور بھلائی کا حکم دے اور برائیوں سے روکے، جو لوگ یہ کام کریں، وہی فلاح پانے والے ہیں‘‘ (سورہ آل عمران۔۱۰۴) کچھ لوگ اس آیت کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے‘‘۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ذمہ داری ایک خاص طبقہ کی ہے، پوری امت سے اس کا مطالبہ نہیں ہے، لیکن دیگر مفسرین اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’تم کو ایک ایسی امت ہونا چاہئے، جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے‘‘۔ مجھ ناچیز کے خیال میں قول ثانی درست لگتا ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں، ایک تو یہ کہ آیت کا آخری فقرہ ہے ’’وہی فلاح پانے والے ہیں‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فلاح کے مستحق وہی لوگ ہوں گے، جو یہ کام کریں گے۔ جس عمل پر فلاح منحصر ہو، اس کا مطالبہ کسی خاص طبقہ سے نہیں کیا جاسکتا، بلکہ اس کی دعوت پوری امت کو دیا جانا ضروری ہے۔دوسرے یہ کہ چند آیتوں کے بعد اس مطالبۂ قرآنی کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ’’(اے لوگو جو ایمان لائے ہو) اب تم ہی وہ بہترین امت ہو، جس کو لوگوں کے لئے برپا کیا گیا ہے، کیونکہ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور بُرائی سے روکتے ہو اور خود بھی اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘ (سورہ آل عمران۔۱۱۰) گویا اس امت کے وجود و ظہور کی غرض ہی یہ بتائی جارہی ہے کہ اس کو بَرپا ہی اس لئے کیا گیا ہے کہ یہ اصلاح و تبلیغ کا فریضہ انجام دے گی۔ یہ آیت صاف بتا رہی ہے کہ اصلاح و تبلیغ کی ذمہ داری کسی خاص گروہ کی نہیں، بلکہ پوری امت اس کی ذمہ دار ہے اور ہر فرد اصلاح و تبلیغ کا مکلف ہے، یعنی ہر مسلمان (خواہ کہیں ہو، کسی حیثیت میں ہو) اسلام کا ’’سفیر‘‘ ہے، اسے لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچانا ہے۔