آہ !شہنشاہ جذبات دلیپ کمار بھی رخصت ہوئے

   

فیروز بخت احمد
ہندستانی سنیما اورفلم انڈسٹری کے کوہِ نور یوسف خان عرف دلیپ کمار، شہنشاہ جذبات کو آج مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منھ کو آتا ہے۔یوں تو ان کے متعلق گزشتہ کئی برسو ںسے خبریں آرہی تھیں مگر صحت مند گھر لوٹ آتے تھے مگر بعد میں جو خبر آئی تو وہ دلوں کو چیر گئی ۔شہنشاہ جذبات بھی رخصت ہوگئے۔
تعجب خیز امر یہ ہے کہ صدی کے نامور اداکار اور عظیم فن کار رخصت ہوئے مگرنیشنل میڈیا پر اس کا کوئی خاص ذکر اور کوریج نہیں ؛کیوں کہ مرکزی کابینہ میں توسیع کی جانی تھا ۔ وزارتوں کی اس بندربانٹ کا کا کھیل ہمارے نیشنل میڈیا دکھایا۔اسے اس سے کوئی غرضکہ وطن کا سرفخر سے بلند کرنے والے افراد اور انسان رخصت ہورہے ہیں۔
ایک طویل عمر،ایک طویل عرصہ اور ہندستانی سنیما کے ابتدائی دور میں اپنی بہترین اداکاری کی سوغات عطا کرنے والے دلیپ کمارکا نام کئی حیثیتوں اور رتبوں سے بلند ہے۔انھیں ٹریجڈی کنگ بھی کہا جاتا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سوبرس میں ان کی اداکاری کا متبادل کوئی پیدا نہ ہوسکا ہے۔ انڈین فلم انڈسٹری کو اس بات پر بجا طورپر ناز ہے کہ اس نے دلیپ کمار جیسا نایاب ہیرا دریافت کیا اور دنیا کے سامنے پیش کیا ۔ان کی شبیہ اور جاذبیت،انداز گفتگو،علم پروری، فلموں کا جاد وجو سرچڑھ کر بولتا تھا اور بالخصوص طبقۂ خواتین پر ان کا جو اثر ہوتا تھا ،وہ بے مثال ہے۔راقم الحروف کی بالمشافہ ملاقات تقریباً 25سال قبل دہلی کے اشوکا ہوٹل میں ہوئی ،جہاں انھوں نے جادو کا کھیل دکھایا تھا اور نہایت زندہ دلی کے ساتھسامعین و حاضرین کو محظوظ کیا۔اسی محفل کا ایک واقعہ ذہن میں یاد رہ گیا ہے۔
انھوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کر تے ہوئے اچانک سامعین سے کہا:’’آپ لوگ سمجھتے ہیں کہ میں بہت بڑا ایکٹر ہوں،دراصل میں ایک جادو گر ہوں۔اگر آپ لوگ میری جادوگری دیکھنا چاہیں تو کو ئی صاحب اپنا رومال پیش کرے۔حاضرین میں سے ایک صاحب نے رومال پیش کیا۔دلیپ صاحب نے اسے تہہ کر کے اس کا سرا اوپر نکالااور حاضرین میں سے ہی کسی سے ماچس لے کر اس میں آگ لگا دی۔پھر وہ سامعین سے پوچھنے لگے کہ بتائیے کیا یہ رومال جل گیا ہے؟اس سوال پر پورے ہال میں چے می گوئیاں ہونے لگیں۔دلیپ صاحب کی آواز پھر آئی:’’جولوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ رومال جل گیا ہے وہ اپنے ہاتھ بلند کریں!‘‘چنانچہ بہت سے لوگوں نے ہاتھ کھڑے کردیے۔انھیں دیکھ کر دلیپ صاحب نے کہا کہ ’’جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں؛وہ سچ ہی سمجھ رہے ہیں۔جادووادو کچھ نہیں ہوتا۔۔۔۔۔‘‘یہ سننا تھا کہ پورا ہال قہقہوں سے گونج اٹھا۔
بقول معروف اداکارہ وحیدہ رحمان دلیپ کمار فلمی دنیا کے ایسے جادوگرتھے جن کا جادو ہر دور میں سرچڑھ کر بولا ہے۔ایسے اداکار جسے لفظوں کے استعمال کا شعور تھا۔ جن کے اظہار میں ستاروں کی چمک اور تازہ پھولوں کی مہک آتی تھی ۔
دلیپ کمار برصغیر کے سب سے بڑے فلمی اداکار تھے جنھوں نے اپنا فلمی کیریئر ’جواربھاٹا‘سے شروع کیا۔ فلمی دنیا میں داخل ہونے سے قبل نوجوان یوسف کی ملاقات دادرکی ایک ہوٹل میں ہدایت کار امید چکرورتی سے ہوئی ۔جنھوں نے دلیپ کمار کو بمبے ٹاکیز کی مالکن اداکارہ دیویکارانی سے ملوایا۔دیویکارانی کو ان دنوں ایک اچھے چہرے کی ضرورت تھی ۔دیویکارانی نے دلیپ کمار سے دریافت کیا:’’کیاتم سگریٹ پیتے ہو؟‘‘ جواب میں دلیپ کمار نے کہا:’’جی نہیں!‘‘۔’’کیا تمھیں اردو آتی ہے؟‘‘دلیپ کمار نے کہا:’’جی ہاں!‘‘ اسی طرح کے مختصر سے سوال وجواب کے بعد دیویکارانی نے یوسف خان کو اپنی فلم کے لیے پسند کرلیا۔دلیپ کمار ان دنوں بے کار تھے اور کام کی تلاش میں سرگرداں تھے۔بی ۔اے۔ پاس کرچکے تھے،لیکن ابھی تک کہیں مزاج کے مطابق کام نہیں ملا تھا ۔لیکن جب وہ دیویکا رانی سے ملے اور انھوں نے یوسف خان کو فلم کے لیے پسند کرلیا تو یوسف خان نے بھی منظوری دیدی کہ وہ فلم میں کام کریں گے جب کہ ان کے والد غلام سرور خاں کا بمبئی کی کرافورڈ مارکیٹ میں ،فروٹ،میوے کا کاروبار تھاوہ اور یوسف خاں کے بڑے بھائی ایوب خاں ، یوسف کو ڈاکٹر یا انجینئر بنانا چاہتے تھے —— لیکن قسمت کو تو کچھ اور ہی منظور تھا ۔وہ نہ تو ڈاکٹر بن سکے اور نہ ہی انجینئر بلکہ فلم اداکار بن گئے اور ایک ایسے اداکار جن کی اداکاری کا لوہا دنیا نے مانا اور تسلیم کیا۔دلیپ کمار 11دسمبر 1922کو پشاور میں پیدا ہوئے ۔ تاریخ پیدائش کے حوالے سے ایک بار دلیپ کمار سے گفتگو ہوئی توانھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اس دور میں تاریخ لکھنے کا رواج عام نہیں تھا۔البتہ ایک بار والد صاحب نے بتایا تھا کہ شدید سردیاں تھیں،غالباً دسمبر کا مہینہ تھا ۔بس ایک تاریخ لکھ دی گئی سووہ ہی چل رہی ہے۔
دلیپ کمار کے والد غلام سرو رخاں پشاور میں بھی خشک میوے کا کاروبار کرتے تھے ۔بارہ بہن بھائیوں میں یوسف خاں سب سے زیادہ ذہین اور چالاک تھے ۔ جب ان کے والد بمبئی آئے تو دلیپ کمار کو بمبئی سے 60میل دور دیولال اسکول میں داخل کرایا گیا ۔بعد میں دلیپ کمار نے انجمن اسلام ہائی اسکول سے بھی تعلیم حاصل کی ۔دلیپ کمار فطری طور پر بے حد حساس ،جذباتی اور زودرنج رہا کرتے تھے ۔چھوٹے سے چھوٹا غم ہو یا ناکامی ، اس کا بوجھ ان سے اٹھایا نہیں جاتا تھا۔ابتدا سے ہی وہ جذباتی الجھنوں کا شکار رہے لیکن ان الجھنوں نے انھیں مزید نکھا ردیا۔اس کا عکس ان کا جذباتی فلموں میں نظر آتا ہے اور اس طرح دنیا نے ان کو شہنشاہ جذبات کے نام سے پکارنا شروع کردیا۔1966میں دلیپ کمار نے پہلی بار سائرہ بانو کی سال گرہ پارٹی میں شرکت کی ۔ جہاں ان کی ملاقات سائرہ بانو سے ہوئی اور وہ پہلی ہی نظر میں دل کو بھاگئیں۔پھر وہ دونوں اتنے قریب آگئے کہ چند ماہ بعد ہی شادی کے بندھن میں بندھ گئے ۔ حالاں کہ دونوں کی عمروں میں خاص فرق تھا ۔لیکن یہ فرق ان کے رشتے میں حائل نہ ہوا۔یہ شادی اتنی عجلت میں ہوئی کہ کارڈ بھی نہ چھپوائے گئے ۔صرف دوستوں اور قریبی رشتے داروں کو فون پر مطلع کیاگیا ۔البتہ آل انڈیا ریڈیو نے اس شادی کا آنکھوں دیکھا حال نشر کیا۔ پانچ سال کا طویل وقفہ دے کر 1985میں منوج کمار کی فلم ’کرانتی‘میں کریکٹر آرٹسٹ کے انداز میں دکھائی دیے۔
1982میں رمیش سپّی نے امیتابھ بچن کے ساتھ اپنی فلم ’شکتی‘میں پیش کیااور سبھاش گھئی نے’وِدھاتا‘میں نصیرالدین شاہ کے مقابل لاکھڑا کیا۔دلیپ کمار کو تماش بینوں نے کریکٹر کے طور پر نہ صرف قبول کیابلکہ بے پناہ طور پر پسند بھی کیا۔
1983میں رَوی چوپڑہ نے ’مزدور ‘میں 1984میں رمیش تلواڑ نے’دنیا‘میں اور یش چوپڑہ نے وحیدہ رحمان کے ساتھ ’مشعل‘میں پیش کیا۔دلیپ کمار کے گرد گھومنے والی یہ لازوال فلمیں آج بھی لوگوں کے ذہنوں پر چھائی ہوئی ہیں۔
1986میں کے رگھویندر راؤ نے ’دھر م اور ادھیکاری‘ (روہنی تنگڑی)اور سبھاش گھئی نے’کرما‘میں نوتن کے ساتھ ہی 1989میں ’قانون اپنا اپنا ‘میں نظر آتے ہیں۔کے باپسّیاکی فلم’عزت دار‘میں بھارتی کے ساتھ 1990میں نظر آئے اور پھر 1991میں سبھاش گھئی کی فلم ’سوداگر‘میں آخر ی بار نظر آئے۔فلم ’مسافر‘میں دلیپ کمار نے پہلی بار اپنی آواز میں ایک گیت ریکارڈ کرایا۔اپنے عہدکی بڑی اداکارہ ثریا کے ساتھ ایک فلم’جانور‘شروع کی تھی ۔اس فلم کے ہدایت کار تھے کے۔آصف۔کہتے ہیں یہ فلم دلیپ کمار اور ثریا کے درمیان ناچاقی کی وجہ سے پایۂ تکمیل تک پہنچ سکی ۔اسی طرح نوتن کے ساتھ ’شکوہ‘بھی مکمل نہ ہوئی ۔ایک فلم ’آگ کا دریا‘میں ریکھا کے ساتھ کام کیاہے ۔جس کی ریلیز ابھی تک نہ ہوپائی ہے۔دلیپ کمار نے ایک بنگلہ فلم’پاری‘میں پردتی گھوش کے مقابل کام کیا۔ہندستانی فلم انڈسٹری میں دلیپ کمار پہلے اداکار ہیں جن کے ہیئر اسٹائل کا فیشن پورے بر صغیر میں مشہورہوا۔
فلم فیئرنے دلیپ کمار کو پہلی بار فلم’داغ‘میں بطور بہترین اداکار کا ایوارڈ دیا تھا ۔وہ اب تک فلم فیئر کے آٹھ ایوارڈ حاصل کرچکے ہیں ۔جو اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے اور ایک بڑا اعزاز بھی۔دیکھائے جائے تو دلیپ کمار کو دلیپ کمار بنانے میں جہاں ان کی لازوال اداکاری کو دخل ہے وہیں ان کی اداکاری کو کمال تک پہنچانے میں بمل رائے ،نیتن بوس،کیدار شرما،کے آصف،ایس یوسنی،امید چکرورتی،محبوب خاں،بی آر چوپڑہ،رشی کیش مکرجی،ایس ایس واسن اور سبھاش گھئی جیسے تجربہ کار ہدایت کاروں کا بھی ہاتھ ہے۔
1988میں دلیپ کمارنے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ان کے ہمراہ اہلیہ سائرہ بانو بھی تھیں ۔ایک فلم جرنلسٹ کی حیثیت سے میں راقم الحروف بھی دلیپ کمار کے ہمراہ پشاور،اسلام آباد،لاہور اور کراچی میں ہمسفر رہا ۔اسی طرح دلیپ کمار کو قریب سے دیکھنے کا بڑا بہترین موقع ملا۔پاکستان میں دلیپ کمار کا ایسا استقبال ہوا جیسا کہ سربراہان مملکت کا ہوتا ہے ۔انھیں ہرجگہ ہاتھوں ہاتھ لیاگیا ۔وہ پہلی فلمی شخصیت ہیں جن کا انٹرویو ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کے لیے لیا گیا ۔دلیپ کمار کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ بمبئی کے شیرِف(معتبر شخصیت)اور 1991میں صدرجمہوریہ کے ہاتھوں پدم وبھوشن کا اعزاز بھی حاصل کیا۔اسی طرح فلم انڈسٹری کا سب سے بڑا ایوارڈ دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے بھی وہ سرفراز کیے گئے۔
دلیپ کمار فلمی دنیا کے وہ واحد حکمران ہیں جن کا جانشین یا ولی عہد کوئی نہیں ۔آج وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے مگر ان کی یادیں اور ان کی خدمات نہ صرف ہماری فلم انڈسٹری کا بیش قیمت سرمایہ ہیں بلکہ سنیما شائقین کے لیے بھی انمول اور یادگار ہیں۔
firozbakhtahmed07@gmail.com