اپنے چہرہ سے جو ظاہر ہے چھپائیں کیسے

,

   

کورونا بے قابو … عوام اپنی حفاظت آپ کریں
آبادیوں میں موت کا کھیل … حکومت کے ہاتھ میں کشکول

رشیدالدین
’’جان ہے تو جہان ہے‘‘ یہ محض کوئی نعرہ نہیں بلکہ موجودہ حالات میں اس پر عمل آوری ویکسین اور دوائی سے زیادہ اثر انداز ہے۔ ظاہر ہے کہ جب حکومت عوام کی زندگی بچانے کی دستوری ذمہ داری سے فرار اختیار کرلے تو پھر عوام کو اپنی حفاظت آپ کے اصول پر عمل کرنا ہوگا ۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں حکومتوں کی ناکامی ، تساہل اور تغافل کی کئی مثالیں مل جائیں گی لیکن موجودہ سنگین حالات میں ایسی حکومت کو شائد ہی کسی نے دیکھا ہوگا جس نے عوام کو مرنے کیلئے چھوڑ دیا ہے۔ کورونا وباء کے موت کے کھیل کے آگے عوام کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا تاکہ وباء کا شکار بن جائیں اور حکومت کرکٹ میچ کے اسکور کی طرح اموات کی گنتی کرتی رہے۔ کورونا نے یوں تو ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے لیکن پسماندہ اور غریب ممالک بھی وباء پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے کیونکہ وہاں کی حکومتوں نے ذمہ داری کے احساس کے ساتھ کام کیا اور رعایا کی زندگی کے تحفظ کو ملک کے مفادات پر ترجیح دی ۔ عوام کے بغیر ملک کا تصور ادھورا رہتا ہے ، لہذا ذمہ دار حکومتوں نے اپنے تمام وسائل کو وباء پر قابو پانے کیلئے استعمال کیا۔ رعایا پرور حکومتوں نے معیشت کو انسانی جانوں پر ترجیح نہیں دی ۔ عوام زندہ رہیں تو معیشت کو بہتر بنانے میں دیر نہیں ہوگی۔ یہی جذبہ کورونا کو شکست دینے میں کامیابی کا سبب بنا ۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں کورونا کا وجود برائے نام ہوچکا ہے لیکن ہندوستان میں حکمرانوں کی لاپرواہی نے قیامت صغری کا منظر پیش کیا ہے ۔ ملک کے ہر علاقہ میں لاشیں اٹھ رہی ہیں۔ قبرستان اور شمشان میں آخری رسومات کے لئے جگہ نہیں۔ موسم خزاں میں جس طرح درختوں سے سوکھے پتے جھڑتے ہیں ، جسے پت جھڑ بھی کہا جاتا ہے ۔ ٹھیک اسی طرح ملک کے ہر کونے میں اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ موت کی اس رفتار پر موت کے فرشتہ کو بھی دکھ ضرور ہوا ہوگا ۔ ہندوستان ایٹمی طاقت بن چکا ہے، سائنس و ٹکنالوجی کے شعبہ میں یہاں کے ماہرین ترقی یافتہ ممالک کو چیلنج کے موقف میں ہیں لیکن آج اسی ہندوستان کی کورونا کے آگے بے بسی پر دنیا ماتم کر رہی ہے ۔ وہ ہندوستان جو کل تک ہر مشکل گھڑی میں دنیا کی مدد کرتا رہا، آج وہ چھوٹے چھوٹے ممالک کی امداد کا محتاج بن چکا ہے ۔ ایسے ممالک جن کا رقبہ ہندوستان کی ایک ریاست سے بھی کم ہوگا ، وہ بھی کورونا سے نمٹنے اور انسانی جانوں کو بچانے میں مدد کر رہے ہیں۔ ہندوستان جو کبھی سونے کی چڑیا تھا ، آج وہ دنیا کے آگے مدد کے لئے کشکول لئے کھڑا ہے ۔ ہمیشہ دنیا کو دینے والے ہاتھ آج امداد کے لئے پھیلے ہوئے ہیں۔ 30 سے زائد ممالک نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق انسانی ہمدردی کے ناطے دست تعاون دراز کیا ہے ۔ اس صورتحال کیلئے کون ذمہ دار ہے ، اس بارے میں کسی اشارہ کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ ہر ہندوستانی اچھی طرح واقف ہے ۔ گزشتہ 7 برسوں میں اچھے دن ، سب کا ساتھ ، سب کا وکاس ، میک ان انڈیا ، آتما نربھر بھارت اور نہ جانے طرح طرح کے نعرے لگائے گئے لیکن تمام کا نتیجہ صفر رہا۔ نریندر مودی نے دعویٰ کیا تھا کہ ہندوستان کو کچھ ایسی ترقی دی جائے گی کہ امریکی عوام کو ہندوستان کے ویزا کیلئے قطار میں ٹھہرنا پڑے گا ۔ بڑے بزرگ کہا کرتے ہیں کہ بھلے کھانے کا نوالہ بڑا ہوجائے لیکن زبان سے بڑی بات نہ نکلے۔ مودی کا یہ بیان چھوٹا منہ بڑی بات اور حماقت کے سواء کچھ نہیں تھا ۔ صرف جملہ بازی سے کسی ملک کی بھلائی ہوئی ہے اور نہ ہوپائے گی ۔ ویزا کے لئے امریکی عوام قطار میں تو کہیں دکھائی نہیں دیئے لیکن ہندوستان ، امریکہ اور دیگر ممالک کی امداد کے لئے دامن پھیلائے کھڑا دکھائی دے رہا ہے ۔ ناکام حکمرانی نے ملک کی یہ حالت کردی ہے کہ ویزا تو دور کی بات ہے ہندوستان کے لئے کئی ممالک نے سفری پابندیاں عائد کردی ہیں۔ ہندوستان سے آنے والوں کے لئے کئی ممالک نے اپنی سرحدوں کو بند کردیا ہے ۔ کل تک جن ہندوستانیوں کا استقبال کیاجاتا تھا ، آج ان کے داخلہ پر پابندی عائد کردی گئی ہے ۔ عوام تو عوام ہیں خود نریندر مودی چاہیں تو شائد انہیں بھی دورہ کی اجازت نہیں ملے گی۔ ممالک کا یہ رویہ ہے تو دوسری طرف ہندوستان کی ریاستوں نے دیگر ریاستوں کے عوام کے داخلہ پر روک لگادی ہے۔ ممالک کی سرحدوں کی ناکہ بندی کے بارے میں تو ہر کسی نے سنا ہوگا لیکن یہاں تو ریاستوں نے دوسری ریاستوں کیلئے سرحدوں کو بند کردیا ہے ۔ ملک میں ہندوستانیوں کیلئے آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی ہندوستانی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ ہندوستان کی یہ حالت کیونکر ہوئی اور کس نے یہ حال کیا ہے ؟ حکومتیں اور حکمراں ترقی کے بلند بانگ دعوے کرتے رہے لیکن کورونا وائرس پر قابو پانے کی منصوبہ بندی میں ناکام رہے ۔ کیا ہم سری لنکا ، بنگلہ دیش ، مالدیپ ، بھوٹان اور نیپال سے بھی گئے گزرے ہیں کہ وائرس کے پھیلاؤ کو روک کر عوامی زندگی کا تحفظ نہیں کرسکے ۔ ہندوستان پر اس سے پہلے شائد ہی ایسا برا وقت کبھی آیا ہوگا کہ ایسے ممالک جن کا نام بھی پہلی مرتبہ سنا گیا ، وہ گمنام ممالک سپر پاور ہندوستان کی مدد کر رہے ہیں۔ شائد قدرت کو حکمرانوں کا غرور و تکبر ناگوار گزرا ، لہذا غرور کا سر نیچا کرنے کیلئے ہر کسی کی مدد کے لئے مجبور بنادیا ۔ دوسرے یہ کہ موجودہ حالات کے لئے حکومت کی ناکام پالیسیاں ذمہ دار ہے۔ کورونا کے پہلے مرحلہ میں غیر منصوبہ بند لاک ڈاؤن نے کروڑہا خاندانوں کو مصیبت میں مبتلا کردیا تھا حالانکہ کیسیس اور اموات کی تعداد دوسری لہر کے مقابلہ کم تھی ۔ مودی نے بار بار ٹی وی چیانلس پر نمودار ہوتے ہوئے کبھی تالی تو کبھی تھالی ، کبھی موم بتی جلاؤ ، کبھی موم بتی بجھاؤ ، کبھی سٹی بجاؤ ۔ الغرض وقفہ وقفہ سے قوم کے ساتھ تفریحی و ٹائم پاس کے پروگرام کئے گئے۔ اب جبکہ دوسری لہر میں کورونا بے قابو ہے ، دواخانے علاج سے زیادہ موت کے مراکز میں تبدیل ہوچکے ہیں ، کیسیس ا ور اموات کے معاملہ میں ہندوستان میں ساری دنیا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ آکسیجن نہ ملنے پر دواخانوں کے وارڈس منٹوں میں مردہ خانوں (مارچری ) میں تبدیل ہورہے ہیں۔ علاج نہ ملنے پر لوگ سڑکوں پر دم توڑ رہے ہیں۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود مودی حکومت خواب غفلت کا شکار ہے اور عوام کی موت کا تماشاہ دیکھ رہی ہے ۔ نریندر مودی کل تک انتخابی ریالیوں میں مصروف تھے اور آج شائد شکست کی ندامت اور مایوسی کا شکار ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ مغربی بنگال کی شکست کا بدلہ ملک کے معصوم عوام سے لیا جارہا ہو۔ جس حکومت نے آبادیوں کو قبرستان اور شمشان بننے کے لئے چھوڑ دیا ہے اور عوام کو علاج کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی سے قاصر ہے تو ایسی حکومت کو اقتدار میں برقراری کا کوئی حق نہیں پہنچتا ۔
حکومتیں جب غافل ہوجائیں تو پھر عوام کو اپنی حفاظت کیلئے کمربستہ ہوجانا چاہئے ۔ وزیراعظم ہو یا پھر کسی ریاست کے چیف منسٹر وہ کورونا وباء سے نمٹنے کے فیصلے ایرکنڈیشنڈ چیمبرس میں بیٹھ کر کر رہے ہیں، ان میں کوئی بھی حقیقی صورتحال سے واقف نہیں ہے ۔ انہیں چاہئے کہ چیمبر سے نکل کر دواخانوں کا رخ کریں تاکہ اموات کی سچائی سامنے آئے۔ محض آکسیجن ویکسین یا پھر بستروں کی فراہمی کا دعویٰ کرلینا تو آسان ہے لیکن زمینی حقیقت کا سامنا کرنے کوئی بھی حکمراں تیار دکھائی نہیں دیتا ۔ دوسری لہر سے لوگ ابھی سنبھل نہیں پا ئے تھے کہ ماہرین نے تیسری لہر کا اشارہ دیا ہے۔ ٹسٹوں کی تعداد میں کمی کرتے ہوئے کیسیس کی تعداد کو کم دکھاکر آخر کس کو دھوکہ دیا جارہا ہے ۔ ماہرین نے ملک کی موجودہ صورتحال کو مکمل لاک ڈاؤن کا متقاضی قرار دیا ہے لیکن حکمرانوں کو معیشت کی فکر لاحق ہوچکی ہے ۔ مرکز ہو کہ ریاستیں کوئی بھی اپنے خزانہ میں کمی دیکھنا نہیں چاہتا۔ عوام بھلے ہی دنیا سے گزر جائیں لیکن سرکاری آمدنی میں کوئی کمی ہونے نہ پائے ۔ پہلی لہر میں حکمرانوں نے معیشت سے زیادہ انسانی جانوں کے تحفظ کا نعرہ لگا یا تھا لیکن ایک سال میں سب کچھ بدل چکا ہے ۔ بعض ریاستوں نے لاک ڈاؤن کے نفاذ کے ذریعہ کیسیس میں قابو پانے کی کوشش کی ہے جو قابل ستائش ہے۔ دیگر ریاستوں کو لاک ڈاؤن سے کیسیس میں کمی کا یقین نہیں حالانکہ لاک ڈاؤن کی صورت میں عوام کی نقل و حرکت پر پابندی کے ذریعہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکتا ہے ۔ عالمی ماہرین نے بھی متعدی مرض کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے لاک ڈاؤن کی سفارش کی ہے۔ اسلام نے احتیاط اور چوکسی کا درس دیا ہے جہاں وباء کی صورتحال ہے ، وہاں جانے سے منع کیا گیا اور جس مقامات پر وباء پھیل چکی ہے وہاں کے عوام کو نکلنے سے روکا گیا ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جذام سے متاثرہ شخص کو بیعت کے لئے مصافحہ سے روک دیا ۔ آپ نے فرمایا کہ اس شخص سے کہو کہ بیعت ہوگئی اور وہ چلا جائے ۔ ہندوستان میں دیگر ابنائے وطن کے مقابلہ مسلمانوں کو احتیاط کے بارے میں شعور بیداری کی ضرورت ہے ۔ رمضان المبارک کے دوران حکومتوں نے عبادتوں سے تو نہیں روکا لیکن مسلم آبادیوں میں غیر ضروری شاپنگ کے ذریعہ وائرس کے خطرہ میں اضافہ کا سبب بن رہے ہیں۔ ملک کے موجودہ حالات کو چھپایا نہیں جاسکتا کیونکہ صورتحال کی سنگینی ہر کسی پر عیاں ہے۔ وسیم بریلوی نے آج کے حالات پر یہ شعر کہا ہے ؎
اپنے چہرہ سے جو ظاہر ہے چھپائیں کیسے
تیری مرضی کے مطابق نظر آئیں کیسے