اپنے کعبہ کی حفاظت تمہیں خود کرنی ہے

,

   

گیان واپی مسجد … ایک اور رام مندر تحریک کی تیاری
تاج محل اور قطب مینار پر بری نظریں … فرقہ واریت کا جنون عروج پر

رشیدالدین
ہندوستان آخر کس سمت جارہا ہے؟ آزادی کے 75 برسوں میں پہلی مرتبہ فرقہ پرستی ، نفرت اور تعصب کا جو ننگا ناچ جاری ہے ، اس نے ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کا کام کیا ہے۔ یوں تو فرقہ پرست عناصر نے 75 برسوں میں ملک کے کئی علاقوں میں قتل و غارت گری کے ذریعہ مسلمانوں کے حوصلوں کو پست کرنے کی کوشش کی لیکن دستور ، قانون اور سیکولرازم پر یقین رکھنے والی حکومتوں نے ان کی سرکوبی کی اور ملک کو ایک اور تقسیم سے بچالیا۔ نریندر مودی حکومت کے 8 برسوں میں زعفرانی دہشت گرد بے قابو ہوگئے۔ اب تو حکومت کی سرپرستی میں مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ۔ شریعت میں مداخلت ، لو جہاد ، بیف اور دیگر عنوانات سے ماب لنچنگ کی گئی۔داڑھی اور ٹوپی دیکھتے ہی کفریہ الفاظ دہرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ مساجد ، اذان ، اسلامی عبادات ، زبان اور تہذیب بھی نشانہ پر ہیں تاکہ مسلمانوں کا دینی اور ملی تشخص ختم کرتے ہوئے دوسرے درجہ کا شہری بنادیا جائے۔ شہریت اور ووٹ کے حق سے محروم کرنے قانون سازی کی تیاریاں ہیں۔ ملک کی تاریخ میں نفرت کے اس انتہائی عروج کو کبھی دیکھا نہیں گیا۔ ظاہر ہے کہ جب حکومت کا ایجنڈہ آر ایس ایس اور سنگھ پر یوار کا ایجنڈہ بن جائے تو پھر یہی ہوگا۔ ہندو راسشٹرا کی تشکیل کیلئے مسلمانوں کو ہر محاذ پر چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے تاکہ اسپین کی صورتحال پیدا ہوجائے۔ مسلمانوں نے جب بھی اسلام سے روگردانی کی اور شریعت محض رسمی کارروائی بن گئی اور دنیا کی لالچ ایمان بن گئی تو پھر ایسے حالات کا رونما ہونا عذاب الٰہی کا اشارہ ہے۔ وقت اور حالات کا رونا رونے کے بجائے ہمیں محاسبہ کرنا ہوگا۔ نفرت ، تعصب اور اسلام و مسلم دشمنی کے عروج کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مساجد پر حملے اور ان پر زعفرانی پرچم لہرانا روز کا معمول بن چکا ہے۔ اذان اور عبادت پر پابندی کے لئے عدالتوں سے احکامات حاصل کئے جارہے ہیں۔ جب چاہے اور جس عبادت گاہ کو چاہیں مندر ہونے کا نہ صرف دعویٰ بلکہ سروے کے لئے عدالت سے اجازت حاصل کی جارہی ہے۔ اردو زبان میں سرکاری امتحانات کی مخالفت اور دینی مدارس میں قومی ترانہ کا لزوم ، اذان کے وقت مساجد کے روبرو ہنومان چالیسہ پڑھنا الغرض جس کی جتنی طاقت ہے، اتنا ظلم ڈھانے کا لائسنس دے دیا گیا۔ یہ سب کچھ ہورہا ہے لیکن وزیراعظم نریندر مودی کی زبان پر تالے پڑے ہیں۔ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں فرقہ پرستی جنون کی کیفیت اختیار کرچکی ہے ۔ نفرت کا زہر ہر شعبہ میں اس قدر سرائیت کرچکا ہے کہ بسا اوقات عدلیہ کے فیصلے بھی زعفرانی تحریک کے زیر اثر دکھائی دے رہے ہیں۔ بابری مسجد مسئلہ پر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلہ نے عدلیہ کی غیر جانبداری پر سوال کھڑے کردیئے ہیں۔ ثبوت اور گواہوں کے مسجد کے حق میں ہونے کے باوجود آستھا کی بنیاد پر رام مندر کے حق میں فیصلہ عدلیہ پر اعتماد کو متزلزل کرچکا ہے۔ سپریم کورٹ کا جب یہ حال ہے تو پھر وارانسی کی مقامی عدالت کے فیصلہ پرحیرت اور تعجب کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ایک ہی دن میں دو فیصلے صادر کئے گئے جن میں ایک فیصلہ عدلیہ کے وقار میں اضافہ کرے گا جبکہ دوسری عدالت نے ملک میں ایک اور رامندر تحریک کی بنیاد رکھ دی ہے۔ بابری مسجد کے بعد وارانسی کی گیان واپی مسجد سنگھ پریوار کے نشانہ پر ہے اور اسے دوسری بابری مسجد بنانے کی تیاری شروع کردی گئی ۔ وارانسی جو وزیراعظم نریندر مودی کا انتخابی حلقہ ہے ، وہاں سے مندر کی دوسری تحریک کا آغاز ہوسکتا ہے۔ مقامی عدالت نے مسجد کے اندرونی حصہ میں سروے کی اجازت دے دی ہے ۔ ہندوتوا تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ اورنگ زیب نے مندر توڑ کر مسجد تعمیر کیا تھا اور اندرونی دیواروں پر مورتیاں کندہ ہیں۔ مسلمانوں نے سروے کے لئے مقرر کردہ کورٹ کمشنر کی تبدیلی کا مطالبہ کیا لیکن عدالت نے اسی کو برقرار رکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ سروے رپورٹ میں مندر کے آثار کی موجودگی کا دعویٰ کرتے ہوئے مسجد کو حوالے کرنے کی مانگ کی جائے گی۔ بابری مسجد اور گیان واپی مسجد ابتداء ہی سے سنگھ پریوار ایجنڈہ میں ہیں۔ 2024 ء لوک سبھا انتخابات سے قبل گیان واپی مسجد کے خلاف مہم کا آغاز کرتے ہوئے کارسیوا کا اعلان ہوسکتا ہے۔ بی جے پی قائدین بابری مسجد کی طرح گیان واپی مسجد کو شہید کرنے کی کھلے عام دھمکیاں دے رہے ہیں۔ سروے کے لئے وارانسی عدالت کا فیصلہ مذہبی مقامات قانون 1991 ء کی صریح خلاف ورزی ہے جس میں 15 اگست 1947 ء کے موقف کو بحال رکھا گیا۔ اگست 1947 ء میں جو عبادتگاہیں جس حال میں تھیں ، ان کے موقف کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ عدلیہ میں مسجد کے سروے کی اجازت کے ذریعہ بی جے پی کو آئندہ الیکشن کا ایجنڈہ حوالے کردیا ہے۔ بابری مسجد کے بارے میں دعویٰ تھا کہ بابر نے مندر منہدم کر کے مسجد تعمیر کی لیکن یہ غلط ثابت ہوا۔ ٹھیک اسی طرح گیان واپی مسجد کے بارے میں سروے چاہے کچھ نکلے لیکن بی جے پی اور سنگھ پریوار اپنے مقصد کی تکمیل کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ وارانسی کی مقامی عدالت کے فیصلہ سے ملک میں تاریخی مساجد کے خلاف فلڈ گیٹ کھل جائے گا اور ہر مسجد کے دوبارہ سروے اور کھدائی کا مطالبہ کیا جائے گا۔ سروے کی اجازت کے بعد وارانسی عدالت کے وکلاء نے جشن منایا ۔ وکلاء کا جشن ہر سطح پر فرقہ پرستی کے عروج کو ثابت کرتاہے ۔ عدلیہ کی راہداریوں تک نفرت کا ایجنڈہ پہنچ گیا۔ وزیراعظم کے حلقہ میں وکلاء توکیا اگر جج بھی جشن منائیں تو کوئی عجب نہیں ہوگا۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ بابری مسجد کے چھن جانے پر خاموشی نے فرقہ پرستوں کے حوصلوں کو بلند کردیا جس کا ثبوت گیان واپی مسجد کا سروے ہے ۔ اگر بابری مسجد کے وقت ہی عدلیہ کے فیصلہ کی مخالفت کی جاتی تو یہ مسئلہ پیدا نہ ہوتا۔ آج گیان واپی تو کل تاج محل ، قطب مینار اور دہلی کی جامع مسجد پر بھی مندر ہونے کا دعویٰ کیا جائے گا اور یہ سلسلہ رکنے والا نہیں ہے۔ حکومت ، پولیس اور عدلیہ پر انحصار کئے بغیر مسلمانوں کو اپنے دفاع کا طریقہ خود اختیار کرنا ہوگا۔ ہر دباؤ کے آگے جھکنے کے بجائے جمہوری ، دستوری اور قانونی دائرہ میں رہ کر مزاحمت واحد حل ہے، ورنہ بعد میں کف افسوس ملنے اور پچھتاوے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے تاج محل کے بند کمروں کو کھولنے سے متعلق درخواست کو مسترد کرتے ہوئے تاج محل کے مندر ہونے سے متعلق تنازعہ کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ دعویٰ یہ ہے کہ تاج محل کی اراضی دراصل جئے پور کے مہاراجہ کی ملکیت تھی اور وہاں مندر تھا۔ تاج محل کے 22 کمروں کو کھولنے کی اجازت سے انکار کرتے ہوئے ہائیکورٹ نے درخواست گزار کی سرزنش کی۔ الہ آباد ہائیکورٹ کا یہ فیصلہ تاج محل کے خلاف زعفرانی تنظیموں کی مہم کا منہ توڑ جواب ہے۔ قطب مینار جیسی تاریخی یادگار کو بھی مندر قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ آگرہ ، دہلی ، کاشی اور متھرا میں موجود مسلمانوںکی نشانیوں کے خلاف مہم کا منصوبہ بند انداز میں آغاز ہوچکاہے اور مختلف بہانے سے عدلیہ سے رجوع ہوکر احکامات حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ ملک کی تمام تہذیبی اورتاریخی نشانیوں کو مٹانے سے ہندوستان میں کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ یہ تمام نشانیاں مسلمانوںکی دین ہیں۔ فرقہ پرستوں کو قانون ، دستور اور پارلیمنٹ سے کوئی مطلب نہیں بلکہ وہ صرف ہندوتوا ایجنڈہ کے نفاذ کے خواہاں ہیں۔ ہندوستان کی دنیا بھر میں شناخت مسلم حکمرانوں کی جانب سے تعمیر کردہ تاریخی عمارتوں سے ہے۔ تاج محل ، قطب مینار ، چارمینار اور ایسی ہی نشانیوں کو ختم کردیا گیا تو ہندوستان کے پاس سوائے اجنتہ ایلورہ کی برہنہ تصاویر کے سوا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ مغلوں سے نفرت کا اظہار کچھ اس حد تک ہے کہ نئی دہلی میں مغل حکمرانوں سے منسوب سڑکوں کے نام تبدیل کرنے کا آغاز ہوچکاہے۔ جب مغلوں سے اتنی نفرت ہے تو پھر ان کی یادگار لال قلعہ سے محبت کیوں ؟ ہر سال یوم آزادی اور یوم جمہوریہ پر قومی پرچم لال قلعہ سے لہرایا جاتاہے۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مسلمانوں کی یادگار نے قومی پرچم کو اپنے سر کا تاج بناکر اس کی تعظیم کی ہے۔ نریندر مودی حکومت میں ہمت ہو تو پرچم کشائی کیلئے لال قلعہ کے بجائے کسی اور مقام کا انتخاب کریں۔ مسلمانوں کی عبادتگاہوں اور تاریخی عمارتوں سے دشمنی کے بجائے حکومت کو عوام کے بنیادی مسائل پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے ۔ مسلمانوں کیلئے بھی وقت آچکا ہے کہ وہ محاسبہ کریں اور فرقہ پرستوں کے خلاف جوابی مہم کی حکمت عملی تیار کریں۔ معراج فیض آبادی نے کیا خوب کہا ہے ؎
اپنے کعبہ کی حفاظت تمہیں خود کرنی ہے
اب ابابیلوںکا لشکر نہیں آنے والا