اپوزیشن اتحاد اور نتیش کمار کی اپیل

   


بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار جس وقت سے بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے سے علیحدہ ہوئے ہیں وہ آئندہ عام انتخابات سے قبل اپوزیشن کی صفوںمیںاتحاد کیلئے کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کچھ علاقائی جماعتوں کے قائدین سے ملاقاتیں کی ہیں۔ کچھ قائدین نے ان تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور کچھ قائدین کی فون پر بات چیت کا سلسلہ جاری ہے ۔ نتیش کمار کا کہنا ہے کہ بی جے پی زیر قیادت موجودہ مرکزی حکومت ملک میں ہر چیز پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ وہ اپوزیشن کو ختم کرتے ہوئے خود اپنا تسلط برقرار رکھنا چاہتی ہے ۔ نتیش کمار اور ان سے اتفاق رکھنے والے قائدین کا یہ ادعا ہے کہ ملک میں تمام جمہوری اداروںک و ختم کیا جا رہا ہے ۔ سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیںرکھی جا رہی ہے ۔ نتیش کمار کا کہنا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں بی جے پی کو شکست دینے کی ضرورت ہے جس کیلئے اپوزیشن کو متحد ہونا چاہئے ۔ انہوں نے آج ہریانہ میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں موجودہ حالات میں کسی تیسرے محاذ کی نہیں بلکہ ایک اصل محاذ کی ضرورت ہوگی ۔ اس طرح ان کا کہنا تھا کہ اس محاذ میں تمام مخالف بی جے پی جماعتوں کو شامل ہونے کی ضرورت ہوگی ۔ صرف تیسرا محاذ اس کیلئے کامیاب نہیں ہوسکتا ۔ اس طرح نتیش کمار نے بالواسطہ طور پر یہ پیام دینے کی کوشش کی ہے کہ بی جے پی سے مقابلہ کرنے کیلئے سبھی جماعتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ آنا چاہئے جن میں کانگریس بھی شامل ہونی چاہئے ۔ کچھ قائدین کی جانب سے بی جے پی کے خلاف محاذ آرائی کی بات تو ہو رہی ہے تاہم اس میں کانگریس کو شامل کرنے کے تعلق سے پس و پیش کیا جا رہا ہے ۔ ان میں ممتابنرجی ‘ چندر شیکھر راؤ اور اروند کجریوال بھی شامل ہیں۔ اروند کجریوال کی جہاں تک بات ہے تو وہ جہاں بی جے پی کے خلاف مہم کا دعوی کر رہے ہیں وہیں وہ اپوزیشن جماعتوں کو بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کر رہے ہیں جس سے اپوزیشن کے ووٹ تقسیم ہوسکتے ہیں اور بالواسطہ طور پر بی جے پی کو فائدہ ہوسکتا ہے ۔ اس حقیقت کو وہ تسلیم کرنے تیار نہیں ہیں۔
نتیش کمار ایک سینئر اور تجربہ کار سیاستدان ہیں ۔ وہ سیاست کے اتار چڑھاو سے اچھی طرح واقف ہیں ۔ انہیں ایک طویل سیاسی سفر کیا ہے ۔ ایسے میں ان کی تجویز پر غور کیا جاسکتا ہے ۔ وہ کئی سیاسی جماعتوں کے ساتھ کام کرچکے ہیں۔ بی جے پی کو بھی انہوں نے قریب سے دیکھا ہے ۔ بی جے پی کے ساتھ ایک سے زیادہ مرتبہ انہوں نے اتحاد کیا تھا ۔ وہ کانگریس اور آر جے ڈی سے بھی اتحاد رکھتے ہیں۔ ایسے میںاگر وہ ملک میں ایک اصل محاذ بنانے کی بات کر رہے ہیں تو انہیں اس کی تفصیلات کا بھی کھل کر اعلان کرنے کی ضرورت ہے ۔ جو جماعتیں بی جے پی اور کانگریس دونوں سے دوری بناتے ہوئے تیسرا محاذ بنانے کی وکالت کر رہی ہیں انہیں اگر اس معاملے میں کچھ تحفظات ہیں تو انہیں دور کیا جانا چاہئے ۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ بی جے پی آج جس قدر طاقتور ہوگئی ہے اس کو صرف کانگریس یا صرف تیسرے محاذ کی جماعتیں اپنے طور پر شکست نہیں دے سکتیں۔ اس کیلئے ہر جماعت کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ ہر جماعت کوا پنے اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک مشترکہ ایجنڈہ کے تحت کام کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ ہر ریاست کی صورتحال کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو اپنے اپنے موقف کو پیش کرنا ہوگا ۔ صرف بلند بانگ دعووں کی بنیاد پر انتخابی مفاہمت کے نام پر زیادہ حصہ داری کی بات کرنے سے مخالف بی جے پی محاذ قائم کرنے کی کوششوں پر منفی اثر ہوسکتا ہے ۔
چاہے تیسرے محاذ کی جماعتیں ہو یا کانگریس ہو یا کوئی اور جماعت ہو ‘ سبھی کو اپنی اپنی طاقت کے بل پر اپنے موقف کا تعین کرنا ہوگا ۔ جس ریاست میں جو جماعت مستحکم ہے اور وہاں جو جماعت بی جے پی کو شکست سے دوچار کرسکتی ہے اس کی دوسری جماعتوںکو تائید کرنی ہوگی ۔ محض ہٹ دھرمی والا رویہ اختیار کرتے ہوئے کوئی بھی تیسرے محاذ کی مدد نہیں کرسکتا بلکہ اس سے بی جے پی کی راست مدد ہوسکتی ہے اور بی جے پی چاہتی بھی یہی ہے ۔ جس کسی کا بی جے پی کی مخالفت یا مقابلہ کا دعوی درست ہے اسے اپنے عمل سے اس کو ثابت کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ عوام کو گمراہ کرتے ہوئے کوئی کامیاب نہیں ہوسکتا ۔