اپوزیشن اتحاد اور کانگریس کی ذمہ داری

   

تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
چیف منسٹر بہار و جنتادل یونائیٹیڈ کے صدر نتیش کمار نے اپوزیشن اتحاد کیلئے ایک نئی پہل کا آغاز کردیا ہے اور انہوں نے اس اتحاد کی قیادت کے تعلق سے نئی بحث کا بھی آغاز کردیا ہے ۔ نتیش کمار نے کئی طرح کی قیاس آرائیوں کو ختم کرتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ ملک میں آئندہ عام انتخابات میں اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد ہونا چاہئے اور اس اتحاد کی قیادت کانگریس کو کرنی چاہئے ۔ اس سلسلہ میں کانگریس کو جلد فیصلہ بھی کرنا چاہئے ۔ نتیش کمار کا یہ بھی کہنا تھا کہ کانگریس کو اپوزیشن اتحاد کی قیادت کرتے ہوئے تمام جماعتوں کو ساتھ لینا چاہئے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو نتیش کمار کے خیال میں بی جے پی کو آئندہ عام انتخابات میں 100 سے بھی کم نشستوں پر روکا جاسکتا ہے ۔ نتیش کمار کا یہ دعوی بہت بڑا ہے اور اس میں اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد کیلئے ان کے ذہن میں جو خد و خال ہیں ان کو بھی واضح کردیا گیا ہے ۔ نتیش کمار ایک تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ انہوں نے ایک سے زائد جماعتوں کے ساتھ وقفہ وقفہ سے اتحاد کیا ہے اور وہ سیاسی داؤ پیچ سے اچھی طرح واقف ہیں۔ انہوں نے جس طرح سے کانگریس کو اپوزیشن اتحاد کی قیادت کی پیشکش کی ہے اس سے کئی گوشوں کی جانب سے کانگریس کے بغیر مخالف بی جے پی اتحاد بنانے کی جو باتیں کی جا رہی تھیں ان کی اہمیت کم ہوگئی ہے ۔ یہ واضح ہوگیا ہے کہ آج بھی کئی جماعتیں ایسی ہیں جو چاہتی ہیں کہ بی جے پی کے خلاف اتحاد کیلئے کانگریس کو ہی سبقت حاصل کرنی چاہئے ۔ کانگریس ہی کو پہل کرتے ہوئے سبھی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہئے ۔ یہ ایک ایسا پہلو ہے جس پر کانگریس پارٹی بھی بہت پہلے سے زور دیتی رہی ہے ۔ اب بھی کانگریس کا یہی کہنا ہے کہ بی جے پی سے مقابلہ کیلئے ملک میں اپوزیشن کی صفوں میں اگر کوئی اتحاد ہوتا ہے تو وہ کانگریس کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا ۔ انتہائی کمزور حالت میں بھی کانگریس آج بھی سارے ملک میں اپنا وجود رکھتی ہے اور اسی وجود میں جان ڈالتے ہوئے اسے متحرک کیا جانا چاہئے ۔ دیگر علاقائی جماعتوں کی اپنی بھی مسلمہ اہمیت ہے اور اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ۔
ملک میں کچھ گوشوں کی جانب سے بی جے پی کے خلاف محاذ بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں تاہم یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ محاذ کانگریس کے بغیر ہوگا ۔ باریک بینی سے جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کانگریس آج بھی کئی ریاستوں میں بی جے پی کیلئے واحد چیلنج ہے ۔ جو علاقائی جماعتیں ہیں وہ اپنی اپنی ریاستوں میں بی جے پی کیلئے چیلنج پیش کرتی ہیں۔ تاہم کچھ ریاستیں اب بھی ایسی ہیں جہاں کوئی علاقائی جماعت نہیں ہے اور وہاں مقابلہ صرف کانگریس اور بی جے پی کے درمیان ہی ہوسکتا ہے ۔ اب تک ہوئے مقابلوں میں بھلے ہی بی جے یپ کو کامیابی ملی ہو اور کانگریس نے شکست کھائی ہو لیکن کانگریس کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ حالانکہ بی جے پی کانگریس مکت بھارت کا نعرہ دیتی رہی ہے لیکن وہ کانگریس کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے ۔ اس کے عزائم بھلے ہی یہی ہوں لیکن ملک میں ایک جماعتی نظام جمہوریت کیلئے خطرہ ہوسکتا ہے ۔ ہمہ جماعتی جمہوریت ہندوستان کی انفرادیت ہے اور اس کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ موجودہ صورتحال میں نتیش کمار کے مشورہ کے مطابق کانگریس کو حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔ اب زیادہ وقت نہیں رہ گیا ہے ۔ تمام اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ لانے کیلئے کانگریس کو ابھی سے جدوجہد کرنی چاہئے ۔ کانگریس کو اس معاملے میں فراخدلی کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور زمینی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہئے ۔ یہی وقت کا اہم تقاضہ ہے ۔
جن ریاستوںمیں علاقائی جماعتیں مستحکم ہیں اور وہ بی جے پی کو سخت چیلنج دے سکتی ہیں وہاں کانگریس کو دوسری پوز یشن حاصل کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہئے ۔ محض اضافی نشستوں کا مطالبہ کرتے ہوئے بی جے پی کیلئے حالات سازگار نہیں کئے جانے چاہئیں۔ جن نشستوں پر کامیابی کا یقین ہو یا کامیابی ممکن دکھائی دیتی ہو حقیقت پسندانہ جائزہ لیتے ہوئے ان پر ہی مقابلہ کو ترجیح دی جانی چاہئے ۔ جن ریاستوں میں علاقائی جماعتوں کا کوئی وجود نہیں ہے وہاں انتخابی مہم میں ان جماعتوں کے قائدین کو شامل کرتے ہوئے ایک مشترکہ محاذ بی جے پی کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے اور ایسا کرنا کانگریس کی ذمہ داری بنتی ہے ۔