اپوزیشن اتحاد ‘ جامع منصوبہ بندی ضروری

   

کانوںمیں گونجتی ہیں باتیں تمہاری ہر دَم
حالت ہم اپنی کس کو کس طرح سے بتائیں
بی جے پی کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا ’ انڈیا ‘ اتحاد حتمی شکل اختیار کرچکا ہے ۔ اس کے تین اجلاس اب تک منعقد ہوچکے ہیں اور ہر اجلاس میں پہلے سے کچھ آگے کی سمت پیشرفت ضرور ہوئی ہے ۔ جو جماعتیں اس اتحاد میں شامل ہیںان میں ایک دوسرے کے تعلق سے جو دوریاں تھیں وہ اب بتدریج ختم ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ ہر جماعت میں یہ احساس پوری طرح پیدا ہونے لگا ہے کہ بی جے پی کو شکست دینا ہے تو پھر تمام اپوزیشن جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا ضروری ہے ۔ جب تک اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد پیدا نہیں ہوپایا تھا بی جے پی نے اس کا پوری طرح سے فائدہ اٹھایا ۔ بی جے پی نے کئی جماعتوں میں دوریاں پیدا کرنے میں بھی اہم رول ادا کیا تھا ۔ ایک دوسرے کے تعلق سے اعتماد ختم کرنے کیلئے بھی منصوبہ بندی کی گئی تھی اور ان منصوبوں پر انتہائی موثر انداز میں عمل کیا گیا تھا ۔ جس وقت بی جے پی نے کانگریس مکت بھارت کا نعرہ دیا تھا اس وقت اپوزیشن اور خاص طور پر علاقائی جماعتوں نے اس کا خیر مقدم کیا تھا اور کانگریس کے خلاف بی جے پی کی راست یا بالواسطہ تائید و مدد بھی ضرور کی تھی ۔ تاہم گذرتے وقت کے ساتھ ان جماعتوں کو بی جے پی کے رویہ نے اس حقیقت سے واقف کروادیا کہ یہ نعرہ در اصل اپوزیشن مکت بھارت ہے جس کو کانگریس کا نام دیا جا رہا ہے ۔ بی جے پی کی اس چال کو سمجھنے میں اپوزیشن کو کچھ وقت لگ گیا اور اس وقت تک بی جے پی نے اپنے سیاسی فائدہ کیلئے بہت کچھ کرلیا تھا ۔ اب جبکہ بی جے پی کے منصوبے سے سبھی جماعتیں واقف ہونے لگی ہیں تو انہیںاپوزیشن اتحاد کی اہمیت و افادیت کا احساس ہونے لگا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان جماعتوں نے ایک دوسرے سے دوریوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اب وہ انڈیا نامی اتحاد بھی تشکیل دے چکے ہیں۔ ہر جماعت میں یہ خیال تقویت پا رہا ہے کہ بی جے پی در اصل تمام اپوزیشن جماعتوں کو ختم کرنا چاہتی ہے ایسے میں بی جے پی سے مقابلہ کیلئے انہیں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی اور ایک دوسرے سے مدد لینے کی ضرورت پڑ رہی ہے ۔ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیںہے ۔
اپوزیشن جماعتیں اس احساس کے تحت ایک پلیٹ فارم تلے جمع تو ہوچکی ہیں۔ بتدریج کچھ اور جماعتوں کی شمولیت کے بھی امکانات ہیں۔ ایک مثبت احساس پیدا کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے جو کچھ حد تک کامیاب بھی ہے ۔ تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک جامع اور موثر حکمت عملی تیار کی جائے ۔ ایک موثر منصوبہ تیار کیا جائے اور اس پر عمل آوری کو یقینی بنایا جائے ۔ ملک کے عوام کے سامنے ایک متبادل پیش کیا جائے ۔ جس طرح کرناٹک میں بی جے پی حکومت کا متبادل کانگریس میںد کھائی دیا تو عوام نے اسے اقتدار پر فائز کردیا ۔ اسی طرح ملک بھر میں ایک موثر متبادل بننے کیلئے ضروری ہے کہ عوام کیلئے فلاحی پروگرامس اور اسکیمات پر غور کیا جائے ۔ عوام کو راغب کرنے اور انہیں حقیقی معنوںمیںراحت پہونچانے والے منصوبے تیار کئے جائیں۔ ان کی بہتر اور موثر انداز میں تشہیر کی جائے ۔ عوام تک رابطوں کو یقینی بنایا جائے ۔ عوام کی شکایات کو سمجھتے ہوئے ان کی یکسوئی کیلئے کوشش کی جائے ۔ ان کے مستقبل کو تابناک بنانے کے پروگرامس بنائے جائیں۔ ملک میں ماحول کو بہتر بنانے کیلئے حکمت عملی اختیار کی جائے ۔ معاشی پروگرامس اور پالیسیوں کو انتہائی سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے تیار کیا جائے اور ان کی تفصیل سے عوام کو بھی واقف کروایا جائے ۔ عوام کو ان کے حقوق اور ان کی ذمہ داریوں دونوںسے واقف کروایا جائے ۔ ان میںحکومتوں سے سوال کرنے کا جذبہ پیدا کیا جائے تاکہ وہ اپنے حقوق کو منوانے کیلئے اٹھ سکیں۔
اس اتحاد کیلئے سب کچھ کرنے کے ساتھ تشہیر بھی بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے ۔ جو منفی تشہیر دوسرے گوشوں سے ہوگی اس کا جواب بھی دیا جانا چاہئے ۔ اپنے منصوبوںکو عوام میںپیش کرتے ہوئے ان کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔ فی الحال میڈیا سے تو غیرجانبداری کی امید کرنا فضول ہی ہوگا ۔ جتنا ممکن ہوسکے تیز و طرار ترجمانوں کی خدمات حاصل کی جائیں۔ اس کے علاوہ سوشیل میڈیا پر خاص توجہ دی جائے ۔ باضابطہ ایک شعبہ اس کیلئے مختص کیا جائے ۔ اس کے ارکان کو تربیت دی جائے اور تنقیدوں کا جواب دینے اور اپنے منصوبوں کی تشہیر کیلئے مبسوط حکمت عملی بنائی جائے تاکہ یہ اتحاد کامیابی کی سمت پیشرفت کرسکے ۔