اپوزیشن جماعتوں میں اختلافات

   

ملک میںآئندہ پارلیمانی انتخابات کا وقت بتدریج قریب آتا جا رہا ہے ۔ آئندہ سال کے پارلیمانی انتخابات سے قبل جاریہ سال ملک کی مختلف ریاستوں میں اسمبلی انتخابات بھی ہونے والے ہیں۔ ان انتخابات کیلئے ہر جماعت اپنے طور پر تیاریوں میں جٹ گئی ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے ان کی تیاریاں بہت پہلے سے شروع کردی گئی ہیں۔ شمال مشرقی ریاستوں کو بھی بہت زیادہ اہمیت دیتے ہوئے بی جے پی کی جانب سے شدت سے انتخابی مہم چلائی جارہی ہے ۔ اس کے بعد کچھ بڑی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان کیلئے بی جے پی کے منصوبے تیار ہوچکے ہیں اور بالواسطہ طور پر ان پر عمل آوری کا آغاز بھی کردیا گیا ہے ۔ بی جے پی پھوٹ ڈالو اور راج کرو کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے اپنی مہم کو آگے بڑھا رہی ہے ۔ انتخابات کا سامنا کرنے کیلئے اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد کی ضرورت ہے ۔ ہر گوشے سے اتحاد کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے ۔ ہر گوشہ چاہتا ہے کہ اپوزیشن کی صفوں میںانتخابات کا سامنا کرنے کیلئے اتحاد ہوجائے ۔ تمام جماعتیں مل کر بی جے پی کے مقابلہ کیلئے تیار ہوجائیں۔ تاہم کوئی بھی اس معاملے میں پہل کرنے کیلئے تیار نہیںنظر آتا ۔ ہر کوئی دوسروں کیلئے مشورے دینے میں مصروف ہے خود کوئی مشورہ قبول کرنے یا اپنے ہی دئے گئے مشوروں پر عمل کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کے پاس کامیابی حاصل کرنے یا بی جے پی کی کامیابیوں کا سلسلہ روکنے کیلئے باہمی اتحاد کے علاوہ کوئی اور راستہ نظر نہیںآتا ۔ اس کے باوجود وہ اپنے اختلافات کو ختم کرنے میں پس و پیش کا ہی شکار ہیں۔ کئی علاقائی جماعتیں ایسی ہیں جن کے ایک دوسرے سے اختلافات ہیں۔ ان اختلافات کا بی جے پی کی جانب سے سیاسی استحصال کیا جا رہا ہے ۔ یہ بی جے پی کی حکمت عملی کا حصہ ہے ۔ سیاست میں ایسا کرناعام بات ہے ۔ اس کے باوجود علاقائی جماعتیں کسی طرح کی پہل کرتے ہوئے اپنے اختلافات کو فراموش کرنے تیار نظر نہیںآتیں ۔اس معاملے میں ان کے قول و فعل میں یکسانیت کا فقدان ہے اور تضاد پایا جاتا ہے ۔
کئی گوشے ایسے ہیں جو چاہتے ہیں کہ واقعتا بی جے پی سے مقابلہ کیلئے اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد ہوجائے اور بی جے پی کا مشترکہ مقابلہ کیا جائے ۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں میں ایک دوسرے پر اعتماد کی کمی دکھائی دیتی ہے ۔ ہر علاقائی جماعت دوسری جماعت سے اندیشوں کا شکار دکھائی دیتی ہے ۔ ایک دوسرے پر بھروسہ نہیںد کھائی دے رہا ہے ۔ کوئی کسی لیڈر کے عزائم کے تعلق سے فکرمند ہے تو کسی کو کسی جماعت کے رول پر شکوک پائے جاتے ہیں۔ کوئی سمجھتا ہے کہ کوئی وزارت عظمی کی خواہش رکھتا ہے تو کوئی ان اندیشوں کا شکار ہے کہ دوسری جماعت زیادہ بڑا رول حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ ان اندیشوں کی وجہ سے اپوزیشن کی صفوں میںا تحاد نہیں ہو پا رہا ہے ۔ کوئی علاقائی مسائل یا شکار ہے تو کوئی کسی ریاست کے مفادات کیلئے فکرمند ہے ۔ ایسے میں ایک اصل سوال یہ ہے کہ کس کو وزیر اعظم بننے سے روکنا ہے اور کس کی کامیابیوں کے سلسلہ پر بریک لگانا ہے ۔ یہ بات ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمنٹ شتروگھن سنہا نے واضح کی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اصل سوال یہ نہیں کہ کون وزیر اعظم بنے گا اور کس کا رول کم یا زیادہ ہوگا ۔ اصل سوال یہ ہے کہ کس کو وزیر اعظم بننے سے روکا جائے اور کس کی کامیابیوں کے سلسلہ پر بریک لگایا جائے ۔ جب اس مقصد میں کامیابی مل جائے تو پھر صورتحال کے تقاضوں کے مطابق یہ طئے کرنا بھی زیادہ مشکل نہیں رہے گا کہ نئے اتحاد میں کس کا رول کیا ہوگا اور کس کو کس حد تک نمائندگی مل پائے گی ۔
اب جبکہ انتخابات کیلئے وقت قریب آتا جار ہا ہے تو اپوزیشن کے پاس اپنے اتحاد کو یقینی بنانے کا وقت بھی کم ہوتا جا رہا ہے ۔ اس صورتحال کو سبھی کو سمجھنا چاہئے ۔ ہر کوئی اپنے ہی موقف پر بضد اور اٹل رہتا ہے تو اتحاد کی امیدیں کم سے کم ہوتی جائیں گی ۔ ہر کسی کو ہٹ دھرمی والے رویہ سے گریز کرتے ہوئے اپنے رویہ میں لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ایک دوسرے کی تشویش اور فکر کو سمجھتے ہوئے اپنے موقف کو پیش کرنا چاہئے تاکہ وسیع تر اتفاق رائے کو یقینی بنایا جائے ۔ باہمی اختلافات کو فی الحال پس پشت ڈالتے ہوئے وسیع تر منظرنامہ کی کوشش کرنا سبھی کے حق میں بہتر ہوگا اور عوام کے سامنے موثر متبادل پیش کیا جاسکے گا ۔