اپوزیشن میں نشستوں کی تقسیم پر مذاکرات

   

کتنا عجیب ہے اس کا اندازِ محبت بھی
روز رُلا کے کہتا ہے اپنا خیال رکھنا
حالانکہ ابھی ملک میںپارلیمانی انتخابات کیلئے باضابطہ شیڈول جاری نہیں کیا گیا ہے لیکن اپوزیشن جماعتوں اور برسر اقتدار اتحاد میں شامل جماعتوں نے اپنے اپنے طور پر بات چیت کا عمل شروع کردیا ہے تاکہ تمام جماعتوں میں نشستوں کی تقسیم پر مذاکرات مکمل کئے جاسکیں ۔ مختلف جماعتوں میں اگر اتحاد ہوتا ہے تو اس اتحاد میں سب سے بڑی رکاوٹ نشستوں کی تقسیم ہی ہوتی ہے ۔ ہر جماعت چاہتی ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ نشستوں پر مقابلہ کا موقع مل سکے اور وہ کوشش کرتے ہوئے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کرسکے ۔ تاہم کچھ جماعتیں سابقہ ریکارڈ اور کامیابی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس پر فیصلہ کرنا چاہتی ہیںاور یہیں سیاسی جماعتوں میں اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اب جبکہ پارلیمانی انتخابات کیلئے وقت گذرتا جا رہا ہے ایسے میں اپوزیشن اتحاد کی جماعتوں میں باہمی سطح پر بات چیت اور مذاکرات کا عمل شروع ہوچکا ہے ۔ کانگریس پارٹی خاص طور پر علاقائی جماعتوں کے ساتھ بات چیت کے عمل کو مکمل کرنے میں مصروف ہوگئی ہے ۔ پارٹی چاہتی ہے کہ جتنا جلد ممکن ہوسکے نشستوں کی تقسیم پر مذاکرات مکمل ہوجائیں تاکہ عوام تک رسائی کے دوسرے امور پر توجہ دی جاسکے ۔ کانگریس کیلئے راہول گاندھی بھارت جوڑو نیائے یاترا بھی شروع کرنے والے ہیں۔ اس دوران انہیں نشستوں کی تقسیم پر مذاکرات میں حصہ لینے کا وقت کم ہی دستیاب ہوگا ۔ ایسے میں فی الحال کانگریس مختلف علاقائی جماعتوں سے بات چیت کو مکمل کرنے کی کوشش میں مصروف ہوگئی ہے ۔ ایسی جماعتوں کے ساتھ بھی بات چیت کی جا رہی ہے جن سے کانگریس کے تعلقات اپوزیشن اتحاد میں رہتے ہوئے بھی زیادہ خوشگوار نہیں کہے جاسکتے ۔ کانگریس پارٹی نے اس سلسلہ میں عام آدمی پارٹی سے مذاکرات پورے کئے ہیں۔ اس میں کیا کچھ فیصلہ ہوا ہے یہ ابھی کہا نہیں جاسکتا ۔ اس کے علاوہ مہاراشٹرا میں شیوسینا اور این سی پی کے ساتھ بات چیت ہونے والی ہے ۔ مہاراشٹرا میں کانگریس کے موقف اور کامیابی کو دیکھتے ہوئے وہاں نشستوں کی تقسیم پر زیادہ کچھ مسائل کے اندیشے لاحق نہیں ہیں۔
فی الحال مختلف ریاستوں میں جو صورتحال ہے اس میں یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ کانگریس کیلئے نشستوں کی تقسیم پر اتفاق رائے پر پہونچنے میں اترپردیش ‘ بہار ‘ جھارکھنڈ اور مغربی بنگال میں مشکل پیش آسکتی ہے ۔ ان میں جھارکھنڈ کو چھوڑ کر سبھی بڑی ریاستیں ہیں اور یہاں لوک سبھا کی زیادہ نشستیں ہیں۔ اس کے علاوہ ان ریاستوں میں علاقائی جماعتیں طاقتور ہیں۔ بہار میں کانگریس بھی اقتدار میں حصہ دار ہے لیکن اس کا موقف کمزور ہے ۔ جھارکھنڈ میں بھی پارٹی اقتدار میں شریک ہے ۔ بنگال میں ممتابنرجی لگاتار تین معیادوں سے اقتدار میں ہیں اور وہاں وہ کانگریس کو زیادہ کچھ نشستیں چھوڑنے کیلئے تیار نظر نہیں آتیں۔ وہی حال اترپردیش میںدکھائی دیتا ہے ۔ اکھیلیش یادو بھی اس معاملے میں سخت موقف اختیار کرسکتے ہیں۔ بہار میں حالانکہ نتیش کمار اور تیجسوی یادو کانگریس کے حلیف ہیں لیکن کامیابی کے امکانات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کانگریس کیلئے زیادہ حلقے چھوڑے جانے کی امید کم دکھائی دیتی ہے ۔ ایسے میں کانگریس کیلئے ضروری ہے کہ ان ریاستوں میں جہاں علاقائی جماعتیں مستحکم ہیں محض چند نشستوں کیلئے تکرار کرنے کی بجائے ان ریاستوں پر توجہ مرکوز کرے جہاں اس کا راست مقابلہ بی جے پی سے ہو ۔ ان میں مدھیہ پردیش ‘ راجستھان ‘ گجرات ‘ چھتیس گڑھ وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں علاقائی جماعتیں نہیں ہیں۔ یہاں کانگریس کو ووٹر تک پہونچنے اور ووٹوں کو کامیابی میں بدلنے کی حکمت عملی پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔
اپوزیشن اتحاد میں شامل دوسری جو جماعتیں ہیں وہ بھی ریاستی اور علاقائی سطح پر نشستوں کی تقسیم کیلئے مذاکرات کا عمل شروع کرچکی ہیں۔ کچھ جماعتوں میں بات چیت کا عمل شروع نہیں ہوا ہے ۔ سبھی جماعتوں کو یہ کام جتنا ممکن ہوسکے جلد اور ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرلینے کی ضرورت ہے ۔ بات چیت کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے بھی ہر جماعت کو لچکدار موقف اختیار کرنا چاہئے ۔ اصل ایجنڈہ کامیابی کا ہونا چاہئے ۔ بی جے پی کوا قتدار سے بیدخل کرنا ہے تو پھر سبھی جماعتوں کو اپنی انا اور بالا دستی کے جذبہ کو ترک کرتے ہوئے کام کرنا ہوگا ۔ انڈیا اتحاد کے آئندہ اجلاس تک نشستوں کی تقسیم پر بات چیت مکمل ہوجانا اتحاد کیلئے بہتر ہوسکتا ہے۔