اپوزیشن پر وزیر اعظم کو دھمکانے کا الزام

   

عمر بھر جن پہ رہی خاص توجہ تیری
وہ مگر تیری توجہ سے بھی ڈرتے ہی رہے
ہندوستان میں انتخابی عمل شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور سیاسی قائدین اپنی اپنی پارٹی اور امیداروں کی انتخابی مہم میں مصروف ہوگئے ہیں ۔ اپوزیشن جماعتیں ہوں یا پھر برسر اقتدار جماعت ہو ہر کوئی اپنے اپنے طور پر ایک دوسرے کو نشانہ بنانے اور اپنے حق میں ووٹ حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی بھی بی جے پی کی انتخابی مہم کا حصہ بنے ہوئے ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ بی جے پی کی ساری کی ساری انتخابی مہم خود وزیر اعظم مودی کی مرہون منت بن کر رہ گئی ہے ۔ بی جے پی کے دوسرے قائدین اور خود پارٹی امیدوار ایسا لگتا ہے کہ ضابطہ کی تکمیل کیلئے انتخابی مہم کا حصہ بنے ہوئے ہیں اور ساری کی ساری ذمہ داری وزیر اعظم مودی پر عائد کردی گئی ہے ۔ ملک کا گودی میڈیا بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہے اور وہ بھی ہر مسئلہ پر وزیر اعظم کی تشہیر میں مصروف ہے ۔ وزیر اعظم ملک کے طول و عرض کے دورے کرتے ہوئے اپنی پارٹی اور امیدواروں کی مہم چلا رہے ہیں اور اس میں وہ اپوزیشن کو تنقیدوں کا نشانہ بنانے سے چوک نہیں رہے ہیں۔ انہوں نے آج مدھیہ پردیش میں اپوزیشن انڈیا اتحاد کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ اتحاد انہیں دھمکانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ یہ ایک طرح کا مضحکہ خیز دعوی ہے ۔ وزیر اعظم اس دعوے کے ذریعہ عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کے وزیر اعظم کو دھمکانے کی کسی میں بھی ہمت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اتنی جراء ت کرسکتا ہے ۔ ہندوستان کے وزیر اعظم کا عہدہ اتنا کمزور نہیں کہ کوئی بھی اسے دھمکا سکے ۔ یہ در اصل ملک کے عوام کو گمراہ کرتے ہوئے ہمدردی کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش ہے ۔ یہی کوشش وزیر اعظم نے کرناٹک کے اسمبلی انتخابات کے دوران بھی کی تھی لیکن وہاں انہیں یہ کوشش کامیاب نہیں کرسکی اور کرناٹک کے عوام نے اس دعوی کو مسترد کرتے ہوئے بی جے پی کو بھی مسترد کردیا تھا اور کانگریس کو ایک بڑی اور شاندار کامیابی سے ہمکنار کروایا تھا ۔ کرناٹک میں اس حکمت عملی کے ناکامی کے باوجود وزیر اعظم لوک سبھا انتخابات میں یہی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جہاں ملک کے وزیر اعظم کو کوئی خوفزدہ نہیں کرسکتا اور نہ ہی دھمکا سکتا ہے ۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ حکومت کی جانب سے تحقیقاتی ایجنسیوں کا استعمال کرتے ہوئے ضرور اپوزیشن جماعتوں اور ان سے وابستہ قائدین کو دھمکایا جا رہا ہے ۔ انہیں خوفزدہ کیا جا رہا ہے ۔ ان کے خلاف مقدمات درج کئے جا رہے ہیں۔ انہیں جیلوں میں بند کیا جا رہا ہے ۔ انہیں ضمانتوں سے بھی محروم کیا جا رہا ہے ۔ جو قائدین اور جماعتیں حکومت کی دھمکیوں سے خوفزدہ ہو رہی ہیں وہ طوعا و کرہا حکومت کا ساتھ دینے پر مجبور ہو رہی ہیں۔ کئی قائدین ایسے ہیں جن کے خلاف ہزار وں کروڑ روپئے کی دھوکہ دہی کے مقدمات درج کئے گئے تھے ۔ ان سے پوچھ تاچھ بھی کی گئی تھی ۔ تاہم جیسے ہی انہوں نے اپنی اپنی پارٹیوںکو خیرباد کہا اور بی جے پی کا دامن تھام لیا تمام کی تمام تحقیقات روک دی گئیں اور انہیں راحت دینے کے علاوہ انعام کے طور پر عہدے اور وزارتیں بھی دی گئیں۔ کہیں کسی کو چیف منسٹر بنادیا گیا تو کسی کو ڈپٹی چیف منسٹر کا عہدہ دیا گیا ۔ کسی کو کسی ریاست کا صدر بنادیا گیا تو کسی کو وزارتیں تقسیم کی گئیں۔ یہ بی جے پی اور برسر اقتدار جماعت کا وطیرہ ہے کہ وہ سیاسی مخالفین کو دھمکانے اور خوفزدہ کرنے کی سیاست کرتی ہے ۔ اپوزیشن پر اس طرح کا الزام عائد کیا جانا اور وہ بھی وزیر اعظم کی جانب سے ایسا الزام عائد کیا جانا انتہائی مضحکہ خیز اور گمراہ کن محسوس ہوتا ہے ۔ یہ بات ملک کے عوام اور رائے دہندے بھی سمجھتے ہیں کیونکہ وہ باشعور ہونے لگے ہیں۔
انتخابی مہم کے دوران ایک دوسرے پر تنقیدیں اور جوابی تنقیدیں عام بات ہیں۔ یہ جمہوری عمل کی روایت ہے ۔ تاہم اس طرح کی بیان بازیاں ملک کے وزیر اعظم کو ذیب نہیں دیتیں۔ انہیں اس طرح کی بیان بازیوں کے ذریعہ سیاسی فائدہ تو حاصل ہوسکتا ہے لیکن ملک کے وزیر اعظم کے عہدہ کا وقار مجروح ہوتا ہے ۔ کسی کو بھی اس عہدہ کے وقار کو مجروح کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔ انتخابات میں عوامی تائید حاصل کرنے کے کئی طریقے ہیں اور ان کو اختیار کیا جاسکتا ہے ۔ سیاسی بوکھلاہٹ میں اپنے فائدہ کیلئے ملک کے دستوری اور اعلی ترین عہدہ کے وقار کو داؤ پر لگانے سے سبھی کو گریز کرنا چاہئے ۔