اپوزیشن کے علاقائی اتحاد

   

ملک میں آئندہ لوک سبھا انتخابات کیلئے علاقائی سطح پر سرگرمیوں میں تیزی پیدا ہوگئی ہے ۔ بی جے پی اپنے اقتدار کو لگاتار تیسری معیاد میں برقرار رکھنے کی جدوجہد کر رہی ہے ۔ جس طرح سے رام مندر کے افتتاح سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس سے واضح ہوگیا ہے کہ بی جے پی اپنی کارکردگی اور دس سالہ ریکارڈ کی بنیاد پر مقابلہ کرنے کی بجائے حسب روایت مذہبی جذبات کے استحصال کے ذریعہ ہی کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کے انڈیا اتحاد میں بھی ایسا لگتا ہے کہ تیاریاں در پردہ شروع ہوگئی ہیں۔ تاہم بظاہر حالات وہ دکھائی نہیں دے رہے ہیں جیسے ہونے چاہئے تھے ۔ انڈیا اتحاد کا باضابطہ اجلاس کچھ وقت سے نہیں ہوا ہے ۔ اس کی وجہ سے ہی کئی گوشوں سے اس تعلق سے اندیشوں کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ انڈیا اتحاد میں شامل جماعتوں کے بعض قائدین ایک دوسرے کے خلاف ریمارکس کرنے سے بھی گریز نہیں کر رہے ہیں۔ خاص طور پر اترپردیش اور مغربی بنگال میں اتحادی جماعتوں میں اختلافات کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے ۔ سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھیلیش یادو بھی کانگریس کے ساتھ اتحاد کے معاملے میں کھلے دل سے آگے بڑھتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ انہیں کانگریس کی حکمت عملی سے اختلاف دکھائی دیتا ہے ۔ مدھیہ پردیش اسمبلی انتخابات میں جس طرح سے کانگریس لیڈر کمل ناتھ نے ریمارکس کئے تھے اس سے اکھیلیش یادو اب بھی ناراض دکھائی دے رہے ہیں اور وہ انڈیا اتحاد سے باضابطہ علیحدگی کا اعلان تو نہیں کر رہے ہیں لیکن در پردہ اپنے مقامی سطح کے اتحاد پر زیادہ توجہ دیتے نظر آ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے آج راشٹریہ لوک دل کے لیڈر جئینت چودھری سے اتحاد کا اعلان کردیا ہے ۔ جئینت چودھری کی جماعت کیلئے سماجوادی پارٹی مغربی اترپردیش میں لوک سبھا کی سات نشستیں چھوڑنے تیار ہوئی ہے ۔ اس علاقہ میں راشٹریہ لوک دل کی مقبولیت کافی ہے ۔ یہ اتحاد مقامی سطح پر کرلیا گیا ہے ۔ انڈیا اتحاد کی مجموعی نشستوں کی تقسیم پر بات چیت سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہ گیا ہے ۔
راشٹریہ لوک دل اور سماجوادی پارٹی کے مابین اس سے قبل بھی اتحاد ہوا تھا اور دونوں جماعتوں کا احساس ہے کہ انہیں اس اتحادسے پہلے بھی فائدہ ہوا تھا اور اب بھی فائدہ ہوگا ۔ ایک بڑے اتحاد میں شامل رہتے ہوئے اگر دو مقامی اور ریاستی سطح کی جماعتیں آپس میں اس طرح سے اپنے طور پرا تحاد کرلیتی ہیں تو انڈیا اتحاد میںسب کچھ ٹھیک نہ رہنے کے جو اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں وہ درست ہی دکھائی دے سکتے ہیں۔ ایسے میں انڈیا اتحاد میں شامل تمام ہی جماعتوں کو ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہوئے اور ایک دوسرے پر یقین کا اظہار کرتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ نشستوں کی تقسیم کو ریاستی اور علاقائی سطح تک محدود کرنے کی بجائے تمام جماعتوں کے مرکزی قائدین کو اس معاملے میں آگے آنے کی ضرورت ہے ۔ ہر جماعت کے ذمہ دار قائدین اگر بیٹھ کر کوئی فارمولا تیار کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو پھر اس طرح کے اتحاد کے بہتر اور مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کا ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلنے کا عزم زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ ایک دوسرے پر اندیشوں اور شبہات کا اظہار کرتے ہوئے آگے بڑھنے سے ہوسکتا ہے کہ کسی ایک کو فائدہ ہوجائے لیکن حلیف جماعتوں کا مشترکہ نقصان ضرور ہوسکتا ہے ۔ کسی ایک جماعت کا فائدہ سارے اتحاد کا فائدہ نہیں ہوسکتا ۔ اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے جہاںہر جماعت کا اپنا فائدہ ہو وہیںسارے اتحاد کو بھی اس کے نتیجہ میںاستحکام حاصل ہوجائے ۔
کچھ ریاستوں میں اختلافی مسائل ضرور ہوسکتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا ہر نکتہ پر ایک دوسرے سے متحد ہونا ضروری نہیں ہے ۔ تاہم جتنے اتفاقی امور ہیں ان پر توجہ کرتے ہوئے اگر کام کیا جائے تو اختلافات کی نوعیت اور شدت دونوں کو کم سے کم کیا جاسکتا ۔ اتر پردیش ایک بڑی اور اہم ریاست ہے ۔ اکھیلیش یادو ایک بڑے اور ذمہ دار لیڈر ہیں ۔ ریاست میں ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ اسی لئے سبھی جماعتوں کو ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کا خیال رکھتے ہوئے کام کرنا چاہئے اور جتنا ممکن ہوسکے نشستوں کی تقسیم پر اتفاق پیدا کرنے کیلئے سرگرم ہوجانا چاہئے ۔ یہ انڈیا اتحاد کے استحکام کیلئے ضروری ہے ۔