اچھے دن تو نہیں آئے، عوام سچے دن کے منتظر

   

پی چدمبرم
میرے ہاتھوں میں اخبار ’انڈین اکسپریس‘ مورخہ یکم مئی ہے اور میں جاریہ انتخابات کے بارے میں مختلف رپورٹس پڑھ رہا ہوں۔ ایک خبر نمایاں شہ سرخی کے ساتھ ہے … مودی: پارٹی جو خواب میں تک نہیں سوچ سکتی کہ کوئی اپوزیشن لیڈر پی ایم کی حیثیت سے لوک سبھا پہنچ سکتا ہے۔ اس رپورٹ میں واجبی تفصیل کے ساتھ مسٹر نریندر مودی کی لکھنو اور مظفرپور کی تقاریر کو پیش کیا گیا ہے۔ ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش تمام پارٹیوں کیلئے انتخابی لڑائی کا کلیدی میدان ہے۔ یہ 2019ء میں خصوصیت سے بی جے پی کیلئے اہم ہے کیونکہ وہ (80 کے منجملہ) 71 نشستوں کو برقرار رکھنے کی جدوجہد کررہی ہے جو اس نے 2014ء میں جیتے تھے۔ 71 سیٹوں نے بی جے پی کو لوک سبھا میں قطعی اکثریت کے ساتھ حکومت تشکیل دینے میں مدد دی ہے۔ اگر یو پی میں بی جے پی نصف نشستیں بھی ہار جائے تو وہ اپنی عددی طاقت پر حکومت تشکیل دینے سے قاصر رہے گی۔ لہٰذا، کچھ تعجب نہیں کہ مسٹر مودی اپنا زیادہ وقت یو پی کیلئے صَرف کررہے ہیں۔ اس میں کوئی قباحت نہیں، سوائے اس کے کہ ہر نئی تقریر کے ساتھ مسٹر مودی نئے نئے غیرمعمولی دعوے کرتے جارہے ہیں اور خوش فہمی بڑھاتے جارہے ہیں۔ وہ اسکول یا کالج سے فارغ اوسط درجہ کے ووٹر سمجھ بوجھ کو چیلنج کررہے ہیں۔ وہ کسی شخص کی سچائی کے معاملے میں بھی لچک کی حدود کو آزما رہے ہیں۔ مسٹر مودی کے دعوؤں پر غور کیجئے:
کوئی بم دھماکے نہیں؟
کانگریس اور دیگر کو دہشت گردی سے لڑنے سے قاصر رہنے پر مستوجب سزا قرار دینے کے بعد مسٹر مودی نے کہا، ’’کیا اب آپ مندروں، بازاروں، ریلوے یا بس اسٹیشنوں میں کوئی دھماکوں کی آواز سنتے ہیں؟ یہ بم دھماکے رُک گئے یا نہیں؟ وہ مودی کے خوف کے باعث موقوف ہوچکے ہیں۔‘‘ قبل ازیں انھوں نے بارہا دعویٰ کیا تھا کہ اُن کی پانچ سالہ میعاد میں کوئی بم دھماکے نہیں ہوئے!بدقسمتی سے حقائق برعکس ہیں۔ حسب ذیل گزشتہ پانچ برسوں میں پیش آئے بڑے بم دھماکوں کی جزوی فہرست ہے، جس میں اُسی روز کا دھماکہ شامل ہے جس دن مسٹر مودی نے اپنا جھوٹا دعویٰ پیش کیا:
تاریخ
مقام
ہلاکتیں
5-12-2014
مہرہ، جے اینڈ کے
10
10-4-2015
دنتیواڑہ
5
27-1-2016
پلامو
6
19-7-2016
اورنگ آباد، بہار
10
2-2-2017
کوراپٹ، اڈیشہ
7
10-5-2017
سکما
25
27-10-2018
اواپلی، چھتیس گڑھ
4
14-2-2019
پلوامہ
44
9-4-2019
دنتیواڑہ
5*
1-5-2019
گڈچرولی
15
* بشمول ایک بی جے پی رکن اسمبلی
تاریخ جاننے کی ضرورت ہے
ایک اور پسندیدہ موضوع مسٹر مودی کا یہ ہے کہ انھوں نے پاکستان کے خلاف پہلی ’سرجیکل اسٹرائک‘ کرائی اور یہ کہ ماضی میں کبھی کسی حکومت نے انڈین آرمی کو سرحد عبور کرکے پاکستان کے خطہ میں داخل ہونے کا مجاز نہیں گردانا تھا۔ مجھے حیرانی ہے کہ آیا مسٹر مودی نے نہیں سنا (یا پڑھا) کہ آرمی نے 1965ء اور 1971ء میں کیا کچھ کیا! کیا ہندوستانی ڈیفنس فورسیس نے پاکستان کے خطہ میں داخل ہوئے بغیر جنگیں جیتیں، اور 1971ء میں بنگلہ دیش کو آزادی دلائی؟ علاوہ ازیں، آرمی کے جنرلوں نے نشاندہی کی تھی کہ مسٹر مودی کا دعویٰ غلط ہے اور ادعا کیا کہ ’یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا اور یہ آخری بھی نہیں رہے گا‘۔ سابق میں سرحد پار کی کارروائی کا جدول ملاحظہ کیجئے :
21-1-2000 :
نڈالا انکلیوو، دریا نیلم کے پار
18-9-2003 :
بروہ سیکٹر، پونچھ
19-6-2008 :
بھٹل سیکٹر، پونچھ
30-8-2011 :
شاردا سیکٹر، دریا نیلم کے پار
6-1-2013 :
سوان پترا چیک پوسٹ
27-7-2013 :
نزاپیر سیکٹر
6-8-2013 :
وادیٔ نیلم
مسٹر نریندر مودی محض ایک سیاسی پارٹی کے لیڈر ہیں اور مہم جو نہیں ہیں۔ وہ وزیراعظم ہند ہیں۔ عوام کو حیرانی ہے کہ کیوں ملک کا وزیراعظم بار بار غیرصحیح دعوے کرتا ہے۔ یہ حافظہ کی لغزش کا معاملہ نہیں سمجھا جاسکتا کیونکہ مسٹر مودی کو بار بار یاددہانی کرائی جاچکی ہے کہ بم دھماکوں اور سرجیکل اسٹرائیکس کے بارے میں اُن کے دعوے واضح طور پر غلط ہیں۔ نا ہی یہ چالاکی والی انتخابی چال ہوسکتی ہے کیونکہ عوام غصہ ہوں گے جب وہ بار بار غلط بات سنیں گے۔ میرے خیال میں اس کے جوابات مسٹر مودی کی شخصیت میں گہرائی سے پیوست ہیں۔
حقیقی مسائل پر خاموشی
حال ہی میں، مسٹر مودی نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے کبھی اپنی خاکساری والے ماضی (چائے والا) یا اپنی ذات (او بی سی) کا حوالہ نہیں دیا ہے۔ میں چند لمحوں کیلئے چکرا گیا، اور معاملے کی تحقیق کی۔ ایسے بیانات ہیں جو مسٹر مودی نے کئی تواریخ پر دیئے ہیں۔ سب سے پہلے جو میں تلاش کرسکا، انھوں نے خود کو 28 سپٹمبر 2014ء کو ’چائے والا‘ قرار دیا تھا اور پھر اس کے بعد ایسا کئی دفعہ کہا۔ اسی طرح کئی بیانات ہیں جہاں مسٹر مودی نے اپنے پسماندہ ذات والے درجہ کا حوالہ دیا: دو تازہ مثالیں 25 مارچ 2018ء اور 18 اپریل 2018ء کی ہیں۔ یہاں اُن کے قطعی الفاظ پیش کرنا کچھ عجیب معلوم ہوگا کیونکہ وہ وزیراعظم ہند ہیں اور میں اُس عہدہ کا احترام کرتا ہوں۔ مسٹر مودی کو خوش ہونا چاہئے کہ کوئی نہیں جو حقائق کی فوری جانچ کررہا ہے جیسا کہ مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ کی تقاریر کے معاملے میں ہورہا ہے!
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کئی حقیقی مسائل ہیں جن کے بارے میں وزیراعظم بول سکتے ہیں اور عوام وزیراعظم سے بہت کچھ سننا چاہتے ہیں۔ لیکن جانے کیا وجوہات ہیں، مسٹر مودی اپنی پارٹی کے انتخابی منشور کے تعلق سے تک بات نہیں کرتے؛ وہ بیروزگاری اور نوکریوں کے تعلق سے تو بات کریں گے نہیں؛ وہ کسانوں کی پریشانی اور ان کے قرض کے تعلق سے نہیں بولیں گے؛ وہ زرعی پیداوار کیلئے گرتی قیمتوں یا فصل بیمہ اسکیم کی بُری طرح ناکامی کے بارے میں لب کشائی نہیں کریں گے؛ اور وہ خواتین کے خوف، دلتوں، درج فہرست قبائل، ماہرین تعلیم، اسکالرز، صحافیوں، این جی اوز وغیرہ کے تعلق سے بھی بات نہیں کریں گے۔
مسٹر نریندر مودی ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ ’اچھے دن‘ جن کا انھوں نے وعدہ کیا تھا، آچکے ہیں۔ سچ سے آگے کچھ نہیں ہوسکتا۔ عوام جانتے ہیں کوئی ’اچھے دن‘ نہیں ہیں۔ لوگ اوب (بے زار) چکے ہیں اور جھوٹی باتیں سن سن کر غصہ ہیں اور اب سچائی کے چند الفاظ سننے کے متمنی ہیں۔