ملک میں تبدیلی کی ہوا ‘ حکومت کے مداح نیوز اینکرس کا لب و لہجہ بھی تبدیل

   

مودی کی نفرت انگیز تقریر کی مذمت ۔ مودی کے بعد آدتیہ ناتھ نے بھی بکواس شروع کردی
حیدرآباد۔23اپریل(سیاست نیوز) ہندستان میں انڈیا اتحاد کو سبقت ملنے لگی ہے اسی لئے بی جے پی بوکھلاہٹ کا شکار انتخابات کو فرقہ وارانہ خطوط پر لانے کی کوششوں میں مصروف ہے اور خود وزیر اعظم مودی اپنے مقام و مرتبہ کو فراموش کرکے راست مسلمان کا تذکرہ کرنے اور ہندوؤں کو متنفر کرنے لگے ہیں ۔ملک میں انڈیا اتحاد کو امکانی سبقت کا احساس نہ صرف بی جے پی کو ہونے لگا ہے بلکہ گودی میڈیا کے وہ اینکر جو گذشتہ 5 برسوں سے مودی کی ناکامیوں میں بھی کامیابی تلاش کر رہے تھے اوران سے سوال کرنے کی بجائے ان کی مدح سرائی میں مصروف رہے اب وہ بھی مودی سے دامن بچانے کی کوشش کر رہے ہیں اور صحافت کے اصولوں کے مطابق مودی کے دعوؤں کی جانچ کرنے لگے ہیں ۔ حکومت اور بی جے پی پر تنقید اور اس سے سوال کرنے سے گریزاں اینکرس اب بی جے پی اور مودی کی تقاریر پر منفی تبصرے کرنے لگے ہیں جو کہ اس بات کی عکاسی کررہا ہے کہ ملک میں تبدیلی لہر چل رہی ہے۔ عام انتخابات کے پہلے مرحلہ کے بعد ہی بی جے پی کے مقبولیت کے دعوؤں کی قلعی کھلنے لگی ہے اور نہ صرف ہندستان بلکہ دنیا بھر میں مباحث شروع ہوچکے ہیں۔ قومی میڈیا کے اینکرس جو مودی کی مدح سرائی کیا کرتے تھے وہ اب مودی کی راجستھان میں دو یوم قبل کی تقریر اور آج کی گئی تقریر پر سوالات کرنے لگے ہیں اور استفسار کر رہے ہیں کہ کیوں مودی اپنے 10 سالہ دور اقتدار کے دوران کارکردگی اور’سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس ‘ کے منتر کو چھوڑ کر ہندو‘ مسلمان‘ مٹن ‘ حج ‘ منگل سوتر اور ایسے موضوعات پر بات کر رہے ہیں جو کہ انتخابی ضابطہ کی خلاف ورزی کے دائرہ میں آتے ہیں۔ نریندر مودی نے دو یوم قبل نفرت انگیز تقریر کے بعد دوسرے ہی دن حج کوٹہ کا تذکرہ کرکے اپنی تقریر کے منفی اثر کو کم کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے فوری بعد انہوں نے آج تقریر میں کانگریس کو تنقید کا نشانہ بنانے کرناٹک میں ہنومان چالیسا سننے کا تذکرہ کرکے دوبارہ نفرت پھیلانے کی کوشش کی۔انتخابات کے اعلان کے بعد خاموش چیف منسٹر اترپردیش آدتیہ ناتھ نے مودی کی نفرت پر مبنی تقریر کے بعد زہر افشانی شروع کردیی۔ بی جے پی جس کی بنیاد نفرت پر ہے وہ ملک میں اس طرح کی نفرت انگیز تقاریر سے منافرت پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ انتخابات کو فرقہ وارانہ رنگ دیا جاسکے لیکن بی جے پی کے ساتھ قومی میڈیا اداروں کے گودی اینکرس کو بھی اندازہ ہونے لگا ہے کہ اب کی بار مودی کو شکست کا سامنا کرنا پڑیگا اسی لئے ان کے لہجہ میں تبدیلی آنے لگی ہے اور وہ صحافتی ذمہ داریوں کے نام پر غیر جانبداری کا مظاہر ہ کرنے کی کوشش کر نے لگے ہیں۔3