اچھے دن والوں کے بری دن شروع ہوگئے ہیں۔ 

,

   

ملک نئی تقدیر لکھنے کے دور سے گذررہا ہے۔ پورا ملک ریلیوں‘ بڑے بڑے جلسوں ‘ رنگ برنگے جھنڈوں‘ دلکش وعدوں سے گونج رہا ہے ۔ ہر طرف الیکشن کی چرچاہے۔ ایک زمانہ تھا لوک سبھا الیکشن کے بارے میں اتنا شور شرابہ نہیں ہوتاتھا ۔

آج سوشیل میڈیا کا دور ہے ہر بات لمحوں میں دو ر تک پھیل جاتی ہے ۔ اس کے لئے گاؤں میں نیم کے پیڑ کے نیچے بھی اور شہر کے بڑے بڑے سمینار یال میں بھی عام انتخابات کاشور ہے۔ پچھلے پانچ سال جس طرح گذرے ہیں اس سے ہم اچھی طرح واقف ہیں۔

چند امبانیز اور مودیز کو چھوڑ کر ملک کا ہرشہری پریشان رہا ہے ۔ مہنگائی کی بڑھتی مار کا اثر سب کے چہروں پر جھلک رہا ہے ۔

نوٹ بندی کے بعد کے قیامت خیز مناظر ابھی یاداشتوں میں محفوظ ہیں۔ ہجومی تشدد کے زخم ابھی ہرے ہیں‘ تازہ واقعہ 9اپریل کو آسام میں پیش آیا۔

پاکستان سے حساب چکانے والوں کے بارے میں عمران خان کی رائے 11اپریک کو تمام اخبارات میں موجود ہے۔

جس میں انہوں نے ہندوستان میں بی جے پی حکومت کا اعادہ کو پاکستان کے حق میں بہتر قراردیا ہے۔ رافائیل معاہدے پر سپریم کورٹ خاموش نہیں ہے۔

پلواما ں کے شہیدا کی بیواؤں کے آنسو ابھی خشک نہیں ہوئے ہیں۔

پندرہ لاکھ ‘ اچھے دن ‘ دو کروڑ نوکریاں:

ترے وعدے پہ جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مرنہ جاتے ‘ اگر اعتبار ہوتا

انتخابی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا ‘ لیکن ملک کا موڈ صاف دیکھائی دے رہا ہے ۔

امیت شاہ مودی او ریوگی کے چہروں پر گھبراہٹ بتارہی ہے کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے ‘ سپریم کورٹ نے رافائیل پر بات کرکے کلین چٹ پر داغ لگادیاہے ۔

الیکشن کمیشن نے سکیولر پارٹیوں کے دباؤ میں ہی سہی ‘ نمو چینل او رمودی جی پر بنی فلم پر پابندی لگا کر بڑا جھٹکا دیا ہے ۔ اڈوانی جی اگرچہ زبان سے دل کا درد بیان نہ کررہے ہیں لیکن ان کی آتما ضرور کروٹیں بدل رہی ہے۔

مختلف سیاسی پارٹیوں نے انتخابی منشور شائع کردیا ہے ۔

سب نے حسین وعدے کیے ہیں۔ ایک سب سے بڑپ کر ایک سپنے دکھائے گئے ہیں۔

البتہ بی جے پی کا انتخابی منشور اصل میں ملک کو تقسیم کرنے ‘ فرقہ واریت کو بڑھاوا دینے او رملک کی معیشت کو تباہ کرنے کا منصوبہ ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ عوام نے بی جے پی کے منشور کو مسترد کردیا ہے۔

عوام ہندو مسلم کے ایشوز پر حکمرانوں کے ارادے بھانپ چکے ہیں۔ وہ جان چکے ہیں کہ جن کے منھ پر رام ہے ان کی بغل میں دودھار ی چھری ہے ۔

اترپردیش میں اسی پی ‘ بی ایس پی ‘ آر ایل ڈی گٹھ بندھن کی جیت صاف دیکھائی دے رہی ہے۔یہا ں سے بی جے پی کا صفایا تک ہوسکتا ہے۔

مغربی اترپردیش خاص طور پر مظفر نگر جہاں بی جے پی کی انسانیت دشمن نمائندے نے انسانیت کو تارتار کردیاتھا ‘ وہاں بی جے پی کو اپنی عزت بچانامشکل ہورہا ہے ۔

سہارنپور ‘ بجنور‘ مرآد باد ‘ رام پور ‘ بریلی کی ہرسیٹ پر گٹھ بندھن کا امیدوار آگے ہے۔ یہی حال مشرقی اتر پردیش کا ہے۔
بقلم کلیم الحفیظ