اکثریتی بالادستی کا رجحان

   


ہمارے ملک میں سماج کے مختلف طبقات کے مابین نفرتوں کو اس حد تک بڑھا دیا گیا ہے کہ یہاں پرامن بقائے باہم کا جو بنیادی اصول تھا وہی خطرہ میں پڑ گیا ہے ۔ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے اور ایک دوسرے اور ان کے جذبات کا احترام کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ جس وقت سے مذہبی تعصب کو سیاسی فائدہ کیلئے استعمال کیا جانے لگا ہے اس وقت سے حالات مزید ابتر ہوگئے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے اور ایک دوسرے کے مذہبی عقائد کا احترام کرنے والے ہندوستان کے امن پسند عوام کے ذہنوں کو انتہائی حدوں تک زہر آلود کرنے کی مہم چل رہی ہے اور اس کے اثرات بھی وقفہ وقفہ سے دکھائی دینے لگے ہیں۔ ملک کی بعض سیاسی جماعتیں یا ان سے وابستہ شرپسند تنظیمیں ہوں یا پھر خود کو قومی میڈیا قرار دینے والے زر خرید چینلس کے تلوے چاٹنے والے اینکرس ہوں سبھی ملک میںفرقہ واریت کا زہر گھولنے میں مصروف ہیں۔ ہر کوئی اس معاملے میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کو تیار ہوگیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کے ذہنوں پر بھی اس کا اثر ہونے لگا ہے ۔ لوگ ایک دوسرے سے قریب آنے کی بجائے ایک دوسرے کے تعلق سے شکوک و شبہات کا شکار ہونے لگے ہیں۔ ایک دوسرے سے متنفر ہونے لگے ہیں۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر میڈیا پروپگنڈہ کا شکار ہوتے ہوئے ملک میںاکثریتی بالادستی کا ماحول پیدا ہونے لگا ہے ۔ اکثریتی برادری کے افراد ہر معاملے میں ہٹ دھرمی اور اپنی من مانی کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ اقلیتوں کو ملک کے دستور اور قانون میں دئے گئے حقوق کو بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اقلیتوں کو کھلے عام دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ انہیں قتل کرنے کیلئے عوام کو ترغیب دی جا رہی ہے ۔ ہتھیار اٹھانے کے نعرے دئے جا رہے ہیں۔ ملک سے اقلیتوں کو نکال باہر کرنے کے مطالبات ہو رہے ہیں۔ انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ انہیں ووٹ کے حق سے محروم کرنے کے مطالبات ہو رہے ہیں۔
یہ سارا کچھ اکثریتی بالادستی کے رجحان میں اضافہ کا نتیجہ ہے ۔ اکثریتی برادری کے نوجوانوںاور دیگر طبقات کے ذہنوں میں اقلیتوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے اور اکثریتی بالادستی کو یقینی بنانے کا زہر گھولا گیا ہے ۔ یہ بات ان کے ذہنوں میں بٹھائی جارہی ہے کہ اس ملک میں اقلیتوں کو اگر رہنا ہے تو انہیں اکثریت کا محتاج بن کر رہنا ہوگا ۔ ان کی مرضی سے زندگی گذارنی ہوگی ۔ ان کے مطابق اپنے فیصلے کرنے ہونگے ۔ اکثریتی بالادستی کو تسلیم کرنا ہوگا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کے دستور اور قانون میں کسی بھی طبقہ یا کسی بھی برادری کو دوسرے طبقہ یا برادری پر کوئی سبقت حاصل نہیں ہے ۔ کوئی بالادستی حاصل نہیں ہے ۔ کسی کو کسی سے کمتر نہیں سمجھا جاسکتا ۔ ہر ہندوستانی شہری چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو ‘ کسی بھی ذات سے تعلق رکھتا ہے وہ اس ملک میں برابر کے حقوق رکھتا ہے ۔ اس کو کسی سے پیچھے رہنے کیلئے مجبور نہیں کیا جاسکتا ۔ قانون اور دستور کے دائرہ میںرہتے ہوئے ہر شہری دوسرے شہری کے مساوی حقوق سے استفادہ کرسکتا ہے ۔ ملک کے تئیں ہر شہری کی ذمہ داریاں بھی ہیں ۔ ان کو بھی ہر شہری کو پورا کرنا ہوتا ہے ۔ ہر طبقہ کو ملک کے دستور اور قانون کی پابندی کرنا لازمی ہوتا ہے ۔ اس صورتحال میں اکثریتی بالادستی کا رجحان انتہائی خطرناک کہا جاسکتا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں ملک کا ماحول زہر آلود ہو رہا ہے ۔عوام کے ذہن متاثر ہو رہے ہیں۔ سماج کے مختلف طبقات کے مابین نفرتیں بڑھ رہی ہیں اور دوریوں میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
ایسا نہیں ہے کہ ملک میں اکثریتی برادری سے تعلق رکھنے والے تمام ہی افراد اس طرح کی منفی سوچ کے مالک ہوگئے ہیں۔ صرف مٹھی بھر شر پسند عناصر ہیں جو اس طرح کی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنے اقدامات اور حرکتوں کے ذریعہ ملک کا پرامن ماحول بگاڑنے کی کوشش کرنے لگے ہیں۔ ان عناصر کو ناکام بنانا ہر ہندوستانی شہری کا فریضہ ہے ۔ ہر اس اقدام کی مخالفت کی جانی چاہئے جو ملک کے دستور اور قانون کے مغائر ہو ۔ کسی بھی طبقہ کو نہ بالادستی حاصل ہے اور نہ کوئی طبقہ کمتر ہے ۔ سماجی مساوات کے ساتھ ہر طبقہ کو ملک میں برابر کے حقوق حاصل ہیں اور ان سے کسی کو محروم نہیں کیا جاسکتا ۔ اس طرح کی ذہنیت کو فروغ دینے والے عناصر پر بھی لگام کسی جانی چاہئے ۔