اگرچہ زور ہواؤں نے ڈال رکھا ہے

   

مسلمان عدم تحفظ کا شکار… حامد انصاری کی آپ بیتی
تجربات اور حقائق پر بی جے پی چراغ پا

رشیدالدین
حق گوئی بیباکی ایسا وصف ہے کہ جس کسی نے اختیار کیا وہ عوام میں مقبول ہوگیا لیکن خواص میں وہ ناپسندیدہ ہوتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ بادشاہت ہو کہ جمہوریت ہر دور میں حق گو افراد کو مصائب و مشکلات اور امتحان سے گزرنا پڑا۔ حکومت کے ایوان ہوں یا پھر سرمایہ داروں کے دربار ہر دو جگہ جرأت اور حوصلہ مندی کو کبھی بھی پسند نہیں کیا گیا۔ مذکورہ اوصاف حکومتوں کے ایوان میں تہلکہ مچانے کیلئے کافی ہے ۔ سچائی اور حق کی آواز کو جتنا دبانے کی کوشش کی جائے اتنا ہی وہ تیزی سے عوام کی پذیرائی حاصل کرتی ہے بلکہ مظلوموں کی آواز بن جاتی ہے ۔ بہت کم شخصیتیں ایسی ہیں جنہوں نے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہتے ہوئے اظہار حق سے منہ نہیں موڑا۔ اصولوں سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور مصلحت پسندی کو قریب آنے نہیں دیا۔ اقتدار کی چمک دمک اور پھر عہدہ سے سبکدوشی کے بعد کی زندگی دونوں میں اصول پسندی کا دامن تھامے رہے۔ اپنے نظریات اور افکار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ آج ہم جس شخصیت سے قارئین کو روبرو کرانا چاہتے ہیں، وہ ڈاکٹر حامد انصاری ہیں۔ مجاہدین آزادی کے خاندان کے چشم و چراغ ہونے کے ناطے حامد انصاری نے بے لوث اور بے داغ کردار کی ایسی مثال قائم کی کہ مخالفین بھی تلملاکر رہ گئے لیکن انہیں جھکا نہ سکے ۔ ڈاکٹر حامد انصاری نائب صدر جمہوریہ کے عہدہ سے سبکدوش ہوئے تین سال کا عرصہ ہوا لیکن آج بھی سنگھ پریوار اور گودی میڈیا کی آنکھوں میں کھٹک رہے ہیں۔ حامد انصاری نے ایسا کیا کہہ دیا کہ حکومت کی نیند حرام ہوگئی اور کاؤنٹر کے لئے گودی میڈیا کو میدان میں اتارا گیا ۔ ’’ہندوستان کے مسلمانوں میں بے چینی ہے اور وہ عدم تحفظ کا شکار ہیں‘‘۔ یہ جملہ اور حامد انصاری کی زبان میں سنگھ پریوار اور ان کے پیروکاروں پر اس قدر ناگوار گزرا کہ ڈاکٹر انصاری کو کٹر پنتھی ثابت کرنے کی کوشش کی جانے لگی۔ جس طرح ہم نے پہلے کہا کہ حق گوئی ہمیشہ مقبولیت کا سبب بنتی ہے، ٹھیک اسی طرح ڈاکٹر حامد انصاری پھر ایک بار سرخیوں میں ہیں۔ ڈاکٹر انصاری کی آپ بیتی پر مشتمل کتاب رونمائی سے قبل ہی مقبولیت حاصل کرچکی ہے ۔ انگریزی کتاب میں نائب صدر جمہوریہ کی حیثیت سے نریندر مودی حکومت کے ساتھ اپنی میعاد کے باقی تین برسوں کے کئی تجربات کا احاطہ کیا ۔ نائب صدر جمہوریہ عہدہ کے آخری ایام میں راجیہ سبھا ٹی وی کو ایک انٹرویو میں حامد انصاری نے ملک کے مسلمانوں کے حالات کی عکاسی کی تھی ۔ انہوں نے مختلف عنوانات سے مظالم کے پس منظر میں کہا تھا کہ مسلمان عدم تحفظ کا شکار ہیں ۔ یہ جملہ آج تک بھی نریندر مودی حکومت کا پیچھا کر رہا ہے۔ حامد انصاری کے خیالات ان کے طویل تجربہ کا نچوڑ ہیں اور ملک کے نائب صدر جمہوریہ کے عہدہ پر اس قدر تجربہ رکھنے والی بہت کم شخصیتیں گزری ہیں۔ سفارتکار کی حیثیت سے کئی ممالک حتیٰ کہ اقوام متحدہ میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔ قومی اقلیتی کمیشن کے صدرنشین اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر جیسی ذمہ داریوں کے بعد 2007 ء میں یو پی اے حکومت نے نائب صدر جمہوریہ کے جلیل القدر عہدہ پر فائز کیا۔ 2012 ء میں دوسری میعاد کے لئے نائب صدر جمہوریہ مقرر کئے گئے ۔ ڈاکٹر سروے پلی رادھا کرشنن کے بعد حامد انصاری دوسری شخصیت ہیں جنہیں مسلسل دو مرتبہ عہدہ کی شان میں اضافہ کا موقع ملا۔ 2014 ء میں مرکز میں نریندر مودی حکومت تشکیل پائی اور باقی تین برس کا عرصہ کسی آزمائش اور کشمکش سے کم نہیں تھا ۔ راجیہ سبھا کے صدرنشین کی حیثیت سے بی جے پی چاہتی تھی کہ حامد انصاری سرکاری امور کی تکمیل میں تعاون کریں چونکہ راجیہ سبھا میں حکومت کے پاس اکثریت نہیں تھی ، لہذا سرکاری بلز کی منظوری میں حامد انصاری سے مدد چاہتے تھے لیکن ایوان کے مروجہ اصولوں پر حامد انصاری نے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جو بی جے پی کو برداشت نہیں ہوا۔ اپنی آپ بیتی میں حامد انصاری نے راجیہ سبھا کے کئی تجربات بیان کئے جن میں ایک واقعہ وزیراعظم نریندر مودی کا بھی ہے جس میں وہ اچانک حامد انصاری کے چیمبر میں پہنچ گئے اور ایوان میں حکومت سے تعاون نہ کرنے کی شکایت کی۔

مودی اور ان کے ساتھی سرکاری بلز کی منظوری میں حامد انصاری کو رکاوٹ تصور کر رہے تھے۔ حالانکہ راجیہ سبھا میں حکومت کے پاس تعداد کی کمی اصل رکاوٹ تھی ۔ بی جے پی ان کی عہدہ سے سبکدوشی کے لئے ایک ایک دن کا بے چینی سے شمار کرتی رہی اور جب وہ گھڑی آ پہنچی تو نریندر مودی اپنی تنگ نظری کو چھپا نہیں سکے۔ وداعی تقریب میں مودی نے حامد انصاری کے بارے میں کچھ ایسے ریمارکس کئے جو وزیراعظم کے عہدہ کیلئے زیب نہیں دیتے۔ حامد انصاری نے اپنی کتاب میں ان تلخ تجربات کا احاطہ کیا ۔ ظاہر ہے کہ نائب صدر جمہوریہ کی وداعی تقریب میں قابل اعتراض ریمارکس وزیراعظم کے دل میں نفرت ، بغض اور عناد کے جذبات کو ظاہر کرتے ہیں۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کو تکلیف اس بات پر ہے کہ کتاب کے ذریعہ مودی اور ان کی حکومت کا حقیقی چہرہ بے نقاب ہوجائے گا ۔ مودی کو ہر سطح پر جی حضوری کرنے والوں کی ضرورت ہے ۔ مخالفت میں آواز اٹھانے پر جو حکومت کسانوں کو برداشت نہیں کرسکتی، وہ حامد انصاری جیسے مفکر ، مدبر اور دانشور کو کیسے برداشت کرپائے گی ۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ حامد انصاری نے ڈاکٹر ذاکر حسین کی یاد تازہ کردی ہے۔ یہ وہ شخصیتیں ہیں جن کیلئے عہدہ کوئی اعزاز نہیں بلکہ انہوں نے قبول کرتے ہوئے عہدہ کیلئے وقار میں اضافہ کردیا۔ کئی جلیل القدر عہدوں پر فائز رہتے ہوئے وہ کبھی بھی سرکاری مسلمان دکھائی نہیں دیئے اور مخالف اسلام کوئی حرکت نہیں کی۔ اصول پسندی اور دیانتداری بی جے پی کو پسند نہیں آئی اور صدر جمہوریہ کے عہدہ پر حامد انصاری کو فائز نہیں کیا ۔ حالانکہ قابلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر وہ میرٹ پر تھے ۔ انہوں نے یو پی اے اور پھر این ڈی اے حکومتوں کو قریب سے دیکھا ۔ لہذا سیکولرازم اور مسلمانوں کی صورتحال کے بارے میں اظہار خیال ان کے تجربہ کا نچوڑ ہے۔

یو پی اے حکومت نے نائب صدر جمہوریہ کے عہدہ پر فائز کرتے ہوئے کوئی احسان نہیں کیا بلکہ قابلیت کی بنیاد پر ذمہ داری دی اور ساری دنیا میں ہندوستان کے وقار کو بلند کرنے کا کام حامد انصاری نے کیا ۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس ، کیا یہی ہے کہ کسی بھی آواز حق کو برداشت نہ کیا جائے ۔ جو حق مانگے وہ قوم دشمن اور ملک دشمن ہوجاتا ہے ۔ سب کا ساتھ کیا یہی ہے کہ اعظم خاں ، ڈاکٹر کفیل احمد ، کنہیا کمار ، جے این یو طلبہ قائدین اور جہد کاروں کو برداشت نہ کیا جائے۔ کسانوں کی تائید پر کئی نامور صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ۔ گودی میڈیا کے ایک اینکر کے ذریعہ حامد انصاری کو گھیرنے کی کوشش کی گئی لیکن منجھے ہوئے سفارتکار اس کی چال میں نہیں آئے بلکہ اینکر کو اس کا مقام بتادیا ۔ اترپردیش میں مختلف عنوانات سے مسلمانوں کی گرفتاریاں اور ہراسانی کے علاوہ ہجومی تشدد کے واقعات نے حامد انصاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔ اکثر لوگ عہدہ سے ہٹنے کے بعد اظہار خیال کرتے ہیں لیکن حامد انصاری نے عہدہ پر رہتے ہوئے جرأت مندی کا مظاہرہ کیا جو بی جے پی کو برا معلوم ہوا ۔ کتاب کے منظر عام پر آنے سے قبل اتنا ہنگامہ کیوں ہے؟ ظاہر ہے کہ بی جے پی اور سنگھ پریوار کو خوف لاحق ہوچکا ہے کہ عوام میں ان کا حقیقی چہرہ بے نقاب ہوگا اور نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں رسوائی ہوگی۔ دوسری طرف مرکزی بجٹ نے عوام کو مایوس کردیا ہے۔ گزشتہ 6 برسوں میں مودی حکومت کا ایک بھی بجٹ عوام کو راحت پہنچانے اور مہنگائی کم کرنے میں ناکام ثابت ہوا۔ نوٹ بندی سے لے کر پٹرولیم پراڈکٹس کی قیمتوں میں اضافہ مودی حکومت کے معاشی سطح پر دیوالیہ پن کا ثبوت ہے۔ کورونا وباء اور لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں پریشان حال عوام کو بجٹ سے کافی امیدیں تھیں لیکن نرملا سیتارامن نے صرف 75 سال سے زائد عمر والوں کی فکر کی ہے۔ 75 سال کے بعد انکم ٹیکس ریٹرن سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔ جو لوگ اپنی طبعی عمر مکمل کرچکے ہیں اور جنہیں دنیا سے ریٹرن ہونا ہے انہیں انکم ٹیکس ریٹرن سے استثنیٰ مضحکہ خیز ہے ۔ جن کو ابھی جینا ہے ، ان پر کوئی توجہ نہیں بلکہ الٹا مختلف ٹیکسوں کے ذریعہ مصیبتوں کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ نریندر مودی جو خود بھی اپنی عمر کے 70 سال مکمل کرچکے ہیں، شائد ابھی سے اپنے لئے رعایتوں کا انتظام کر رہے ہیں۔ احمد فراز نے کیا خوب کہا ہے ؎
اگرچہ زور ہواؤں نے ڈال رکھا ہے
مگر چراغ نے لو کو سنبھال رکھا ہے