اگست میں مسلمانوں کے خلاف ہندوستان بھر میں پیش ائے نفرت پر مشتمل جرائم کی تفصیلات

,

   

حیدرآباد۔اگست کے مہینے میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مشتمل جرائم کے بے شمار واقعات خاص طور پر ہندی بولی جانے والی ریاستوں میں پیش ائے ہیں۔ اگر چکہ نفرت انگیز جرائم پر مشتمل کسی بھی قسم کی بنیاد بلاجواز ہے‘ جرم کے مرتکب افراد کی جانب سے پیش کئے جانے والے دلائل قابل توجہہ ہیں۔ہندوتوا گروپس‘ یاتی نرسنگ آنند سروسوتی کے بھگت اوربعض معاملات میں بی جے پی پارٹی کے قائدین کی موجودگی میں زوردار حمایت بھی دیکھنے کو ملی ہے۔

اس طرح کے جرائم کو انجام دینے والے لوگ مسلمانوں کو ملازمت سے روکنے کے لئے ہندو عورتو ں کے تحفظ کاسہارا لیتے ہیں تو کبھی اپناجرائم کو ”معاشی جہاد“ کا نام دیتے ہیں۔

ایک تفصیل یہاں پر پیش کی جارہی ہے جو ماہ اگست کے دوران لک بھر میں اس طرح کے جرائم کوانجام دیاگیاہے۔پہلے واقعہ 8اگست کے روز جنتر منتر پر پیش آیاجہاں پرچند شرپسند عناثر نے مسلمانوں کے خلاف تشدد کو بڑھاا دیا اور اشتعال انگیز نعرے لگائے۔

دراصل دہلی بی جے پی کے سابق ترجمان اشونی اپادھیائے کی جانب سے منعقدہ ایک ریالی کے دوران یہ واقعہ پیش آیاتھا۔ اسی طرح کادوسرا واقعہ 11 اگست کے روز اترپردیش کے مظفر نگر میں پیش آیاجہاں پر دائیں باوز کی ہندوتوا تنظیم کے لوگوں نے مقامی مارکٹ میں گھوم گھوم کر مقامی تاجرین کو مسلمانو ں کوملازمت دینے سے متنبہ کیا جومہندی ڈائزنگ کاکام کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مہندی ڈائزنگ کے نام پر مسلم نوجوان ہندو عورتوں کو ورغلانے کاکام کرتے ہیں۔ اس کے بعد 11اگست کو ہی اترپردیش کے کانپور میں افسر احمد نامی ایک 45سالہ اٹوڈرائیور کے ساتھ مارپیٹ کی گئی اور انہیں ’جئے شری رام‘ کا نعرہ لگانے پر مجبور کیاگیا وہیں اس بے رحمانہ کاروائی کے وقت افسر کے ساتھ ان کی پانچ سالہ بیٹی بھی موجود تھی۔

پھر22اگست کے روز مدھیہ پردیش کے اندور میں دائیں بازو کے غنڈوں نے ایک 25سالہ مسلم چوڑی والے ساتھ مارپیٹ کی۔ متاثرہ کا الزام ہے کہ حملہ آوروں نے ان کی چوڑیاں توڑدیں اور 10ہزار روپئے بھی لوٹ لئے۔ مدھیہ پردیش کے ہوم منسٹر نروتم مشرا نے حملہ آوروں کی مدافعت کی اور چوڑی والے کو قصور وار ٹھرایاتھا

YouTube video

اس کے بعد23اگست کے روز ہریانہ کے باپاؤلی گاؤں سے تعلق رکھنے ایک امام کو دائیں بازو کے شرپسندوں نے ”وندے ماترم‘‘ کا نعرہ لگانے کے لئے مجبور کیاتھا‘ ایسا نہیں کرنے پر انہیں گاؤں بدر کردیاگیا۔ اترپردیش کے بریلی میں ایک مسلم نوجوان کو بالوں سے پکڑکر گھسیٹ کر لیاگیا اور ہاتھوں پاؤں کھنبہ سے باندھ کر ”اعتراف“ چوری کے لئے مجبور کیاگیا۔

ایسا ہی ایک واقعہ ماتھرا میں پیش جہاں پر 24 اگست کے روز ایک دوسہ فروخت کرنے والے مسلم نوجوان کو محض اس لئے پیٹاگیا اور اسکی دوسہ کی دوکان میں توڑ پھوڑ کی گئی کہ اس کے دوکان کانام ”شری ناتھ دوسہ کارنر“ تھا۔

مذکورہ اصل سرغبہ دیوراج پنڈت دعوی کرتا ہے کہ وہ یاتی نرسنگ آنند سرسوتی کا بھگت ہے اور ونڈر پر ”معاشی جہاد“ کرنے کا الزام عائد کیاہے۔

اگست29کو مدھیہ پردیش کے اجین میں ایک مسلم اسکرپ ڈیلر کے ساتھ بھی مارپیٹ کی گئی او رانہیں ’جئے شری رام‘ کانعرہ لگانے کے لئے مجبور کیاگیا۔

اوپر میں پیش کے گئے واقعات کے علاوہ ہندوجاگرنا ویدیکا نامی ایک تنظیم پر مشتمل موافق ہندوتوا گروپ نے 19اگست کے روز بنگلورو میں ایک ہندو عورت او رمسلم مرد کومحض اس شبہ میں کہ وہ ساتھ سفر کررہے ہیں پکڑ کر پولیس اسٹیشن لے ائے۔

جھارکھنڈ کے جمشید پور میں دو مسلمانوں محمد اورنگ زیب اور محمد ارزو نے پولیس عہدیداروں پر 26اگست کے روز پولیس اسٹیشن میں بری طرح زدوکوب کرنا اورجنسی استحصال کرنے کا مورد الزام ٹہرایاتھا۔

اورنگ زیب نے مزیدکہاکہ انہیں ساتھی ملزم کے ساتھ غیر فطری عمل کرنے پر مجبور کیاگیا تھا جس سے انکار کرکٹ وکٹ سے انہیں پیٹا گیاہے۔حملہ کاشکار ہونے والے تمام افراد سماجی میں معاشی طور پر پسماندہ طبقہ ہیں۔