اگلا وزیراعظم کون … قیاس آرائی سے کیا فائدہ؟

   

راج دیپ سردیسائی
دہلی میں درجہ حرارت تیزی سے گررہا ہے لیکن سیاسی گرماہٹ بڑھ رہی ہے۔ اب جبکہ نریندر مودی حکومت کو مکرر انتخاب چاہنے کیلئے ایک سو دِن سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے، سیاسی ماحول کو بدلنے کی بے تابی سے کوششیں نظر آنے لگی ہیں: قومی زرعی آمدنی کی مدد والی اسکیم سے لے کر رام مندر پر آرڈیننس، اور تین طلاق قانون تک؛ اس طرح حکومت آخری مرحلے میں ممکنہ فیصلہ کن تبدیلی کیلئے کوشاں ہے۔ لہٰذا، کیا دلچسپ امکانات ہیں جو ہمارے سامنے آنے والے ہیں؟
٭ مودی۔ امیت شاہ کا پلان A : سال 2014ء کا اعادہ جب بی جے پی نے اپنے بل پر 282 نشستیں جیتے، لگ بھگ ناممکن معلوم ہوتا ہے کیونکہ ہندی پٹی کے تین اسمبلی ناکامیوں نے پارٹی کو زک پہنچایا ہے لیکن بی جے پی کی قیادت نے ابھی امید نہیں ہاری ہے۔ ایسا ماننا کہ مودی بمقابل راہول گاندھی صدارتی طرز کی مسابقت میں صرف ایک ونر ہوسکتا ہے اور یہی وجہ پی ایم کے حامیوں کیلئے یہ ماننے کیلئے کافی ہے کہ ’کرم یوگی‘ و ’کامدار‘ بمقابلہ مراعات کے حامل ’نامدار‘ میں جیت مودی کی ہوگی۔ اترپردیش بدستور کلیدی انتخابی میدان ہے، جہاں ہندوؤں میں جوش و خروش پیدا کرتے ہوئے ممکنہ دلت۔یادو۔ مسلم طبقہ و برادری کی صف بندی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ مندر والی حکمت عملی بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔
٭ مودی۔ شاہ پلان B : بی جے پی کی برسراقتدار جوڑی کیلئے زیادہ ممکنہ بہترین صورتحال پارٹی کا کم از کم 220 کے نشانے تک پہنچنا ہے جس میں ملک کے مشرقی گوشے میں ترقی کے نئے شعبوں سے شمالی اور مغربی خطوں میں لگ بھگ یقینی نقصانات کی تلافی ہوسکتی ہے۔ چونکہ بی جے پی کے موجودہ حلیف پارٹیوں سے اسے محدود فائدہ مل رہا ہے، اس لئے نئے پارٹنرس کی تلاش بھی جاری رہے گی: مخالف کانگریس علاقائی پارٹنرس جیسے کے چندرشیکھر راؤ (کے سی آر) ، نوین پٹنائک، جگن ریڈی… یہ تمام قابل ترکیب این ڈی اے 3 مخلوط کا حصہ ہوسکتے ہیں۔
٭ آر ایس ایس پلان C : اگر بی جے پی 200 نشستوں کے نیچے تک گھٹ جاتی ہے تو سنگھ پریوار کی قیادت ظاہری طور پر ناقابل قیاس متبادل کا سوچ سکتی ہے: بی جے پی زیرقیادت حکومت مگر باگ ڈور مودی کے ہاتھ نہ ہوگی۔ یہ اُن کیلئے ترجیحی متبادل ہوسکتا ہے جو کم مرکوز، زیادہ باہمی رضامندی والا قائدانہ طرزعمل چاہتے ہیں۔ اس تناظر میں نتن گڈکری کے شکست پر جوابدہی پر زور دینے والے حالیہ ریمارکس موافقت رکھتے ہیں۔ گڈکری مخلوط حکومتوں کے اِس دور میں سیاستدان کے طور پر زبردست خاصیت رکھتے ہیں: تمام پارٹی خطوط سے قطع نظر دوستانہ تعلقات برقرار رکھنے کی قابلیت۔ اُن کا ناگپور سے تعلق ہونا اور آر ایس ایس سرسنگھ چالک سے قربت بھی کوئی اتفاقی بات نہیں ہے۔ کسی بھی آرگنائزیشن میں قریبی روابط سے فرق پڑتا ہے جیسا کہ زعفرانی تنظیم میں گہرا بھائی چارہ پایا جاتا ہے۔
٭ راہول گاندھی پلان A : مودی۔ شاہ کے برعکس ہونے اور داخلی طور پر ’’راہول برائے پی ایم‘‘ کی بازگشت کے باوجود صدر کانگریس کو ایسا لگتا ہے کہ اپنی تنظیم کی حدوں کے تعلق سے کوئی دھوکا نہیں ہے۔ 2014ء میں 44 نشستوں تک گھٹ جانے کے بعد اب تین ہندسی عددی طاقت بھی مل جائے تو اسے بحالی کا ثبوت سمجھا جائے گا۔ 100-120 کی رینج میں کانگریس پارٹی ہو تو وہ بی جے پی کو نفسیاتی طور پر کلیدی 200 نشستوں کے نشان سے نیچے ڈھکیل سکتی ہے اور مودی کی وزارت عظمیٰ شاید ممکن نہ رہے۔ فی الحال یہی صورتحال راہول کی ترجیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ وہ ریاست واری سطح پر اہم اتحادوں کے ذریعے حالیہ اسمبلی کامیابی کے فوائد کو وسعت دینے کوشاں ہیں۔
٭ راہول گاندھی پلان B : اگر کانگریس 2004ء کے انتخابات کی طرح حیرانی میں ڈالنے والے نتائج میں ڈرامائی طور پر 140 کے نشان کو عبور کرلے تو بی جے پی کو 175 سے نیچے تک گھٹ جانے کا خطرہ رہے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو کانگریس کو قیادت کی اپنی امنگوں کو پیش کرنے پر بُرا نہ سمجھا جائے گا۔ تغیر پذیر حالات میں راہول گاندھی عین ممکن ہے فوری طور پر اپنے لئے وزارت عظمیٰ نہیں چاہیں گے بلکہ منموہن سنگھ جیسے کسی متبادل کو ترجیح دیں گے، چاہے وہ پارٹی کے اندرون سے ہو یا کوئی بیرون پارٹی لیڈر۔ اس طرح کے معاملے میں بنیادی اہلیت عیاں ہے: ایسا امیدوار جو فیصلہ سازی کے بارے میں فرسٹ فیملی کی برتری کو قبول کرے گا (وہ مدح سرائی پر توجہ دیجئے جو شرد پوار نے حال ہی میں سونیا اور راہول گاندھی پر نچھاور کی ہے)۔
٭ فیڈرل فرنٹ پلان A/B : آخری مرتبہ مرکز میں کوئی غیرکانگریسی، غیربی جے پی حکومت 1996ء میں قائم ہوئی تھی جب دو بڑی نیشنل پارٹیوں نے آپس میں 301 نشستیں جیتے تھے۔ اگر وہ مجموعی عددی طاقت اب 300 سے نیچے آجائے جیسا کہ 2004ء میں ہوا، تب علاقائی قائدین کو ایجنڈا طے کرنے کا امکان کھلتا ہے۔ تاہم، یہ پُرعزم قائدین کو ہوسکتا ہے آپس میں کوئی متفقہ امیدوار پر اتفاق کرنے میں مشکل پیش آئے لیکن صرف یہ ایک وجہ شاید انھیں اونچا سوچنے سے مانع نہیں رکھے گی۔ اسی سے وضاحت ہوتی ہے کہ کیوں کے سی آر تلنگانہ جیسی نسبتاً چھوٹی ریاست سے تعلق رکھنے کے باوجود ہم خیال ریاستی سربراہوں سے ملاقاتیں کرتے ہوئے بار بار اپنے بڑے عزائم کے اشارے دے رہے ہیں۔ اور شاید اسی لئے اس بڑھتے ایقان کی واجبیت ہوتی ہے کہ 7، لوک کلیان مارک کیلئے مسابقت ہرگز طے شدہ معاملت نہیں ہے۔
٭ ایک اور خیال : اگر کون بنیگا پردھان منتری اِس نئے سال کا مخصوص موضوع ہے تو 1997ء کو یاد کیجئے جب دیوے گوڑا اپنی وزارت اعلیٰ کھونے کے فوری بعد کئی دعوے دار اُبھر آئے تھے۔ اُن میں ٹامل منیلا کانگریس کے سربراہ جی کے موپنار بھی تھے۔ جب ہم نے خاموش طبع لیڈر کے طور پر مشہور موپنار سے پوچھا تھا کہ کیوں انھوں نے ٹاپ جاب کو قبول کرنے سے انکار کیا، انھوں نے کہا تھا: ’’میری ہندی اتنی اچھی نہیں کہ ملک کی قیادت کرسکوں!‘‘ اس طرح کی غیرمتوقع وضاحتوں سے سیاسی مستقبل طے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لامتناہی قیاس آرائی کو بالائے طاق رکھنا اور بس ہر کسی کو ’’Happy News Year!‘‘ کی نیک تمنا ئیں پیش کرنا ہی بہترین عمل ہوسکتا ہے۔