اہلبیت سے محبت حضورﷺ سے محبت ہے

   

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

حضور نبی اکرم ﷺکے فرامین کی روشنی میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا محبت و مودت اہل بیت کا رویہ نہایت اعلیٰ و ارفع تھا، حضرت عقبیٰ بن\

حارث روایت کرتے ہیں کہ ’’میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ گلی میں جارہے ہیں اور سیدنا امام حسن علیہ السلام کو اپنے کندھوں پر اُٹھا رکھا ہے اور کہہ رہے کہ مجھے اپنے باپ کی قسم! حسن، مصطفی ﷺ کی شبیہ ہے، علی تمہاری شبیہ نہیں ہے۔ حضرت علیؓ یہ سن کر ہنس دیئے‘‘۔ (صحیح بخاری)امام شعبی روایت کرتے ہیں کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ کا انتقال ہوا۔ جنازے سے فارغ ہونے کے بعد اُن کی ضعیفی اور کمزوری کی وجہ سے ان کے لئے سواری (اونٹ) قریب کی گئی تاکہ اُنہیں بٹھایا جائے۔حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگے بڑھے اور حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ادب و احترام کی بناء پر اُن کے پاؤں کو رکاب میں رکھوانے کے لئے رکاب تھام لی۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ جلیل القدر اکابر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں سے تھے اور عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور کی اہلبیت میں سے بھی تھے مگر صغار صحابہ کرام میں سے تھے۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیچھے ہٹ گئے اور فرمانے لگے کہ اے ابن عباس ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا:
هٰکَذَا نَفْعَلُ بِعُلْمَآئِنَا. ’’ہم علماء کے ساتھ ایسا ہی کرتے ہیں‘‘۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ تیزی سے جھکے اورحضرت عبداللہ ابن عباس کا ہاتھ پکڑ کر چوم لیا۔ انہوں نے پوچھا: آپ نے یہ کیا کیا؟
فرمایا: هٰکَذَا اُمِرْنَا اَنْ نَفْعَلَ بِاَهْلِبَیْتِ نَبِیِّنا.’’ہمیں یہ حکم ہے کہ مصطفی ﷺکی اہلبیت کے ساتھ ہم ایسا کیا کریں‘‘۔یہ اور اس طرح کے تمام واقعات اس امر کو واضح کرتے ہیں کہ صحابہ کرام، تابعین اور اکابرین کس طرح اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم سے محبت کا اظہار کرتے۔
قاضی عیاض نے الشفاء میں، امام سخاوی نے الاستجلاب میں اور دیگر بہت سی کتبِ سیرت اور اسماء رجال کی تمام کتب میں ہے کہ امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کے پوتے امام عبداللہ بن حسن المثنیٰ بن الامام حسن المجتبیٰ خود روایت کرتے ہیں کہ میں کسی کام کے سلسلہ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جن کو خلیفہ راشد خامس بھی کہتے ہیں) کے پاس گیا۔ میں اُن سے چھوٹا تھا مگر وہ مجھے دیکھ کر فوری کھڑے ہوگئے، میری حاجت پوری کی اور پھر مجھ سے دست بستہ عرض کرنے لگے: ’’آئندہ خدا کے لئے میرے پاس نہ آنا، کوئی کام ہو تو بس ایک چٹھی لکھ کر بھیج دیا کریں یا کسی بندے کو بھیج دیں، آپ کے حکم کی تعمیل ہوجائے گی۔ آپ کو اپنے دروازے پر دیکھ کرمجھے حیاء آتا ہے۔ قیامت کے دن خدا کو کیا منہ دکھاؤں گا‘‘۔
حضور ﷺکی اہلبیت کی محبت، مودت، عزت و احترام کے ذریعے حضور ﷺ کو خوش کرنا۔ یعنی اہل بیت کے آئینے میں حضور ﷺ کو دیکھنا۔ جب بھی اہل بیت کے کسی شہزادے سے تعلق کا وقت آئے، علی شیر خدا ہوں یا سیدہ فاطمۃ الزہراء علیہا السلام ہوں … امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام ہوں یا امام حسین علیہ السلام ہوں زین العابدین علیہ السلام ہوں یا امام محمد باقر علیہ السلام ہوں… جعفر الصادق علیہ السلام ہوں یا موسیٰ کاظم علیہ السلام ہوں…جب آقا ﷺ کی آل پاک اور اہل بیت اطہار کو دیکھو تو ایمان یہ ہے کہ ان کے آئینے میں تمہیں مصطفیٰ ﷺکا چہرہ نظر آئے۔گویا سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ اصول وضع کردیا کہ اگر تم صاحب ایمان ہو تو اہل بیت کے اندر تمہیں ذات مصطفیٰ ﷺ دکھائی دینی چاہئے۔ اہل بیت ایک آئینہ ہے، اس آئینے میں چہرہ مصطفیٰ ﷺ دکھائی دے۔ اس لئے کہ ان سے محبت حضور ﷺسے محبت ہے۔ یہ عقیدہ اہل سنت ہے۔