اہل اسلام نہ ظلم کرتے ہیں اور نہ ظلم سہتے ہیں

   

حضرت امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مایہ ناز تصنیف ’’تاریخ الخلفاء ‘‘ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ایمان لانے کے ضمن میں نبی آخرالزماں کی آمد اور آپ کے صفات عالیہ سے متعلق ایک اہم واقعہ کو ابن عساکر کے حوالے سے نقل کیا کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بعثت مبارکہ سے قبل صحن ِ کعبہ میں بیٹھے ہوئے تھے اور زید بن عمرو بن نفیل بھی موجود تھے تو اس دوران امیہ بن ابی الصلت کا گزر ہوا اور اس نے خیریت دریافت کی اور سوال کیا کہ جس نبی آخرالزماں کی آمد کا انتظار ہے وہ ہم میں سے ہونگے یا وہ تم میں سے ہونگے ؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس سے قبل کسی نبی کی آمد اور ان کے انتظار کے بارے میں نہیں سنا تھا تو میں فوراً ورقہ بن نوفل کے پاس گیا جن کو آسمانی اور الہامی علم حاصل تھا اور ان کو واقعہ کی تفصیل بتائی تو انھوں نے کہا: اے میرے بھتیجے ! جس نبی کی آمد کا انتظار ہے وہ ازروئے نسب درمیان عرب سے تعلق رکھیں گے اور مجھے انساب کا علم ہے اور وہ تمہاری قوم سے بھی ہونگے ۔ میں نے کہا : وہ نبی برحق کس بات کی دعوت دیں گے ؟ ورقہ بن نوفل نے جواب دیا کہ وہ وہی تعلیم دیں گے جن کا ان کو حکم ہوگا البتہ نہ وہ ظلم کریں گے اور نہ ظلم سہیں گے اور نہ ظلم میں کسی کا ساتھ دیں گے ۔
پس جب رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے نبوت کا اعلان فرمایا تو میں نے فوراً آپ پر ایمان لایا اور آپ کی تصدیق کی ۔
(تاریخ الخلفاء ص : ۳۰)
متذکرہ واقعہ سے معلوم ہوا کہ بعثت کا اہم مقصد ظلم کا خاتمہ ہے اور ظلم کے مختلف درجات ہیں اور سب سے بڑا ظلم خدا ئے ذوالجلال کی ذات ، اسماء ،صفات و افعال میں کسی کو شریک کرتا ہے ۔ نیز ظلم کی مختلف نوعیتیں ہیں ۔ کسی کو ناحق قتل کرنا ، ظلم و زیادتی کرنا ، عزت و آبرو سے کھیلنا، غیرکی جائیداد کو نقصان پہنچانا ، خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنا ، ظلم و ناانصافی پر مبنی قوانین نافذ کرنا اور ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والوں کی آواز دبانے کیلئے شرپسندوں ، بلوائیوں کو کھلی چھوٹ دینا ، ان کی مجرمانہ سرپرستی کرنا سب ظلم میں شامل ہے ۔ واضح رہے کہ دین اسلام ہرقسم کے ظلم کو ختم کرنے کیلئے آیا ہے اور یہی دین حنیف کی بنیادی تعلیم کا حصہ ہے اور یہی ملت ابراھیمی کا رکن رکین ہے چنانچہ زمانہ جاہلیت میں زبیر بن عبدالمطلب کی تجویز اور قبیلہ بنی تیم کے نامور لیڈر عبداﷲ بن جدعان کی سرپرستی میں ’’حلف الفضول‘‘ نامی مشہور معاہدہ ظلم کے خلاف طئے پایا تو نبی اکرم ﷺ نے بھی اس میں جوش و خروش سے حصہ لیا اور بعثت کے بعد انسانیت پر مبنی ، ظلم و زیادتی کے خلاف اس تاریخی معاہدہ کی پذیرائی فرمائی ۔ واضح باد کہ اس معاہدہ کے وقت نبی اکرم ﷺ کی عمر مبارک تقریباً بیس برس تھی اور آپؐ کے ساتھ اس معاہدہ میں آپ کے رفیق خاص حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی شریک تھے جن کی عمر تقریباً اٹھارہ برس تھی ۔ لہذا تاقیامت اہل اسلام عدل و انصاف کے لئے کھڑے رہیں گے اور کسی صورت میں ظلم و زیادتی کو نہ جھیلیں گے اور نہ برداشت کریں گے اور نہ ظالمانہ کارروائیوں کا حصہ بنیں گے ۔
مسلم شریف میں حضرت ابوذر غفاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اﷲ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے : اے میرے بندو ! میں نے اپنے آپ پر ظلم کو حرام کیا ہے اور میں نے ظلم کو تمہارے مابین بھی حرام کیا ہے لہذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔
نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : ظلم کی قیامت کے دن پے در پے تاریکیاں ہونگی ۔ ( بخاری و مسلم ) مسلم شریف کی روایت میں ہے : تم ظلم کرنے سے بچو کیونکہ ظلم کی قیامت کے دن پے در پے تاریکیاں ہونگی۔
اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے : آپ ہرگز نہ سمجھنا کہ اﷲ تعالیٰ ظالموں کے عمل سے غافل ہے بلاشبہ وہ ان کو اس دن تک مہلت دیئے ہوئے ہے جس دن نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی ، وہ اپنے سرجھکائے ہوئے خوف و ہراس میں دوڑیں گے شدت خوف سے آنکھ بند نہیں کرپائیں گے اور ان کے دل اُڑگئے ہونگے ۔ آپ لوگوں کو اس دن سے آگاہ کردیں جس دن ان کے پاس عذاب آئیگا تو ظالمین کہیں گے اے ہمارے رب ! ہم کو تھوڑی سی مہلت دیجئے تاکہ ہم آپ کی دعوت کو مان لیں اور پیغمبران کرام کی پیروی کرلیں۔ کیا تم اس سے پیشتر قسم نہیں کھایا کرتے تھے ۔ یہاں سے تم ہٹنے والے نہیں ۔
( سورۃ ابراھیم ۱۴؍۴۲۔۴۴)
اسلام کے نزدیک ہر ایک انسان کی اہمیت ہے ، خواہ وہ مسلمان ہو یا یہودی ، عیسائی ہو یا مجوسی ، بت پرست ہو یا زرتشی ، کسی بھی مذہب و دین سے وابستہ ہو کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھتا ہو ، امیر ہو یا غریب ، حاکم ہو یا محکوم سیاہ فام ہو یا سفید، سارے انسان بلالحاظ مذہب و ملت اور بلا امتیاز رنگ و نسل برابر و مساوی ہیں ۔ انسانی حقوق میں کسی کو کسی پر کوئی فضیلت و فوقیت نہیں دی گئی بلکہ ساری مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے ۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے قرب قیامت قتل و خونریزی کے عام ہونے کی پیشن گوئی فرمائی ہے ۔ چنانچہ ارشاد فرمایا :زمانہ قریب ہوجائیگا ، علم گھٹ جائیگا ، بخالت بڑھ جائیگی ، فتنے ظاہر ہونگے اور ’’ہرج‘‘ کی کثرت ہوجائے گی ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اﷲ ! ’’ہرج‘‘ کیا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا ’’قتل ۔ قتل ‘‘ (بخاری ، کتاب الفتن)
آج حضور اکرم ﷺ کی پیشن گوئی کی حقانیت و صداقت کو ساری دنیا محسوس کررہی ہے ، ہر طرف خونریزی کے بادل چھائے ہوئے، قتل و خون کی اور دنگوں کی مسموم ہوائیں چل رہی ہیں ، دنیا کا ہر حصہ خون انسانی سے آلودہ ہے ۔ اسلام دشمنی کی تیز تیز آندھیاں چل رہی ہیں ، خون مسلم سے ہولی کھیلی جارہی ہے ۔ ظالم و جابر اور سفاک دشمن طرب و سرور کی محفلیں سجارہے ہیں لیکن ان کو پتہ نہیں کہ ایک مسلمان کے سینے میں پوشیدہ ایمان کی کیا حرمت ہے اور ایک مسلمان کے قتل کے مقابل میں ساری دنیا کا زوال پذیر ہوجانا اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ہیچ ہے ۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کسی مومن کو قتل کرنا اﷲ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کے زوال سے زیادہ سنگین ہے ۔
( سنن النسائی ۔ کتاب تحریم الدم ۔ باب تعظیم الدم )