اہل خرد قرآن کے مخاطب ہیں

   

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اشرف المخلوقات حضرت انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے وقتاً فوقتاً انبیاء کرام، پیغمبران عظام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا اور ان کو اپنے خالق و مالک کی مرضی و رضا کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے مختلف آسمانی صحائف کو نازل فرمایا۔ روایات کے مطابق جملہ ۱۴۰ آسمانی صحائف مختلف انبیاء کرام پر نازل ہوئے اور ان تمام آسمانی صحائف میں اللہ تعالیٰ نے دین و دنیا کے تمام علوم و فنون، اسرار و رموز، حقائق و دقائق کو جمع فرمادیا، نیز تمام آسمانی صحائف کے جملہ علوم و فنون اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قران مجید میں جمع فرمادیا۔
قرآن مجید تاقیامت ساری انسانیت کے لئے سرچشمہ ہدایت، دستور حیات، ضابطہ زندگی، صراط مستقیم، جنت کا راستہ، کامیابی کی ضمانت، دین و دنیا کی سعادت، ہر سوال کا جواب، ہر مشکل و متعلق چیز کا حل، بیماریوں سے شفاء، روح کی جانب کی غذا، خالق و مخلوق کی مناجات، محبوب و محب کا راز و نیاز، دنیا کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب، حق و باطل میں فرق کرنے والی، ذکر و نور، موعظت و رحمت، تذکرہ و مبارک، بشیر و نذیر، بیان و بلاغ، صدق و یقین، حق مبین، وحی و علم، امر و قول، عزیز و حکیم اور رشد و بصائر ہے۔
دنیا شاہد ہے کہ انسانی تاریخ میں کوئی قوم ایسی نہیں گزری، جس نے کسی آسمانی صحیفہ کااس طرح اہتمام کیا ہو ، جس طرح کہ اُمت محمدیہ نے اہتمام کیا ہے۔ اس کے حروف و الفاظ کو کتابوں اور سینوں میں محفوظ کیا۔ علوم و معانی کو اوراق و قلوب میں منتقل کیا۔ اسرار و رموز، حقائق و دقائق کو صدور و عقول میں پیوست کیا۔ جان و دل سے اس کی تعظیم و توقیر کی۔ عملی و بدنی اعتبار سے اس پر عمل کیا اور اس کے حدود و اصول کی پاسداری کی۔لیکن زمانہ رسالت سے بعد و دوری کے ساتھ ساتھ ملت اسلامیہ کے قرآن مجید کے ساتھ وابستگی اور تعلق میں قدرے کمی پیدا ہوتی گئی اور آج اکثر ممالک میں قرآن مجید کی تلاوت، ادائیگی، حفظ اور ترجمہ پر ہی توجہ مرکوز ہے۔ تدبر و تفکر میں غیرمعمولی انحطاط اور زوال واقع ہوا ہے۔ قرآن کو سمجھنے، اس کے پیغام کی گہرائی کو پانے، اسکے مقاصد تک پہنچنے، اس کی تہہ میں پنہاں عوارف و معارف، لولو و مرجان تک رسائی حاصل کرنے میں بالخصوص جستجو نہیں کی جاتی، جب کہ اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے: ’’کیا وہ قرآن میں غور و فکر اور تدبر نہیں کرتے‘‘ (۳؍۲۶۴) جب کہ نزول قرآن کا اہم مقصد تدبر آیات ہے۔ ارشاد الہی ہے: ’’ایسی کتاب ہے، جس کو ہم نے نازل کیا ہے، بابرکت ہے، تاکہ وہ لوگ اس کی آیات میں تدبر کریں اور عقل و خرد اس سے نصیحت حاصل کریں‘‘۔
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’بخدا! قرآن مجید کا تدبر کرنا، اس کے حروف کو یاد کرلینا اور اس کے مقصد کو ضائع کردینا نہیں ہے، یہاں تک کوئی کہتا ہے میں نے مکمل قرآن پڑھ لیا، لیکن قرآن نہ اس کے اخلاق میں نظر آتا ہے اور نہ ہی اس کے کردار میں دکھائی دیتا ہے‘‘۔
میرے استاد محترم مفتی حافظ محمد ولی اللہ قادری شیخ المعقولات جامعہ نظامیہ نے فرمایا ارشاد ربانی: ’’جن کو ہم نے کتاب عطا کی ہے، وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں، جس طرح اس کی تلاوت کا حق ہے‘‘ حق تلاوت کی تشریح و تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’حق تلاوت یہ ہے کہ قرآن مجید کو تجوید کے ساتھ، صحیح مخارج و ادائیگی کے ساتھ پڑھا جائے اور اس کے معانی و مفاہیم کو سمجھا اور اس پر عمل کیا جائے۔ جب یہ تینوں چیزیں جمع ہوتی ہیں تو قرآن مجید کی تلاوت کا حق ادا ہوتا ہے‘‘۔
ابن کثیر نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے: ’’حق تلاوت یہ ہے کہ اس کے حلال کو حلال سمجھا جائے، اس کے حرام کو حرام کہا جائے اور اس کی تلاوت کی جائے جیسا اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس کو نازل فرمایا ہے‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر ) 
شوکانی نے کہا: ’’حق تلاوت یہ ہے کہ قرآن مجید پر عمل کیا جائے اور قرآن پر عمل کرنا اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک کہ قرآن کا علم نہ ہو اور اس میں غور و فکر نہ کیا گیا ہو‘‘۔
(فتح القدیر۱؍۳۵)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’میری قوم نے اس قرآن کو ترک کردیا ہے‘‘ (سورۃ الفرقان۔۳۰) ابن کثیر نے فرمایا: ’’قرآن میں تدبر و تفکر کو ترک کرنا درحقیقت قرآن کو ترک کرنا ہے‘‘۔
حضرت نبی اکرم ﷺ تدبر و تفکر کے ساتھ قرآن مجید پڑھنے کی ترغیب فرماتے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ کوئی قوم و جماعت ایسی نہیں ہے، جس نے اللہ تعالیٰ کے کسی گھر میں جمع ہوکر قرآن مجید کی تلاوت اور اس پر غور و خوض کیا ہو، مگر یہ کہ ان پر سکینہ کا نزول ہوتا ہے، رحمت الہی ان کو ڈھانک لیتی ہے، فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں اور ان کا ذکر کرتے ہیں، جو ان کے پاس ہے‘‘۔ حدیث بالا میں قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ اس کے درس و تدریس، افہام و تفہیم اور تفسیر و تشریح کی ترغیب دی گئی ہے اور تلاوت و درس قرآن دونوں کو رحمت الہی کا موجب قرار دیا گیا۔
قرآن مجید غور و فکر کے ساتھ پڑھنے کی اہمیت کا ہمیں اس بات سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ صحابہ کرام جب تک قرآنی آیات کو اچھی طرح سمجھ کر عمل نہ کرلیں، وہ آگے سبق نہیں لیا کرتے تھے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ ’’ہم میں سے جو شخص دس آیات سیکھ لیتا تو وہ اس سے آگے نہیں بڑھتا، یہاں تک کہ اس کے معانی و مفاہیم جان لیتا اور اس پر عمل کرلیتا‘‘۔ (طبرانی۔۸۰)
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’قرآن مجید نازل ہوا ہے، تاکہ اس پر تدبر کیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے، پس تم اس کی تلاوت کو عمل بنالو‘‘۔ (مدارج السالکین)
مندرجہ تفصیلات سے واضح ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت باعث برکت اور اجر و ثواب کا موجب ہے اور تلاوت کا حق یہ ہے کہ اس کی نہ صرف صحیح ادائیگی کے ساتھ تلاوت ہو، بلکہ قاری کو غور و خوض کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کے لئے کیا احکام نازل فرمائے۔
نزول قرآن کا مقصد کیا ہے؟ جن آیات ربانی کی اس نے تلاوت کی ہے، اس کا پیغام کیا ہے؟ ان کو کس حد تک اس نے سمجھا ہے؟ ان کے اندر کس قدر حقائق و معارف اور اسرار و رموز ہیں؟ اور وہ کس حد تک اس پر عمل پیرا ہے؟۔ محض تلاوت ضرور اجر و ثواب کا باعث، درجات کی بلندی اور گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے، لیکن حقیقی مقصود اس کے پیغام کو دل میں سموکر اس کے مطابق عمل کرنا ہے۔ اسی کے ذریعہ تلاوت کا حق ادا ہوتا ہے اور یہی نزولِ قرآن کا مقصد ہے۔