اہل کشمیر کے آنسو نہیں دیکھے جاتے …

   

محمد مبشرالدین خرم
ارض بہشت (کشمیر) کو یوں ہی نہیں کہا گیا ہے بلکہ یہ خطہ ظلم و زیست کے باوجود اپنی پر کیف وادیوں اور جنت نشانیوں کے سبب مسحور کن زندگی کا احساس دلاتا ہے لیکن ارض بہشت مقامی عوام کے لئے کس قدر جہنم بنی ہوئی اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ کشمیر میں سماج کے ہر طبقہ کی ایک ہی آواز ہے ۔ ڈرائیور ہو یا ٹیچر‘ مہاجر ہویا مقامی ‘ لکچرر ہویا سیاستدان‘ ڈرائیور ہویا ٹورسٹ گائیڈ‘ تاجر ہویا کسان سب کی آواز ایک اور لہجہ مختلف ہے۔ مردو خواتین کے تناسب میں پیدا ہونے والا تفاوت شہریوں کو تفکرات میں مبتلا ء کیا ہوا ہے اور وہ منشیات کے عادی نوجوانوں کی تعداد میں ہونے والے اضافہ سے بھی پریشان ہیں۔ عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں اور علحدگی پسندوں کی خاموشی نے جہاں کشمیری عوام کے تجسس میں اضافہ کیا ہوا ہے وہیں ہندستانی افواج کی تعداد میں ہونے والا اضافہ اور ان کی گشت نے ان کے دلوں کو اس قدر سخت کردیا ہے کہ وہ اب ان سے خائف نہیں بلکہ اسے معمول تصور کرنے لگے ہیں۔ 1989 کے بعد کشمیری عوام کو ہندستان سے قریب لانے اور ان میں احساس تحفظ پیدا کرنے کی جو کوششیں ہوئی اس کے ثمرات اب برآمد ہونے جا رہے تھے کہ 370 کی تنسیخ نے کشمیری عوام کے اعتماد کو متزلزل کردیا اور جو دوریاں پاٹنے کی کوشش ہوئی تھی وہ محنت مکمل طور پر ضائع ہوگئی۔ ملک بھر میں پرسکون زندگی گذارنے والوں بالخصوص انسانی حقوق کے تحفظ کے علاوہ انسانیت کی دہائی دیتے ہوئے کام کرنے والی تنظیموں کو چاہئے کہ وہ کشمیریوں کے مسئلہ پر فوری توجہ دیں اور اس’جنت‘ کو جہنم بننے سے بچالیں کیونک اگر اس جہنم میں آگ دہکے گی تو اس کی گرمی کا احساس پورے ملک کو کرنا پڑسکتا ہے۔جنت کو جہنم بننے سے روکنے کے لئے کشمیری عوام کے حق اور ان کے جمہوری مطالبات کو پورا کرتے ہوئے ان کے ساتھ کام کرنے اور انہیں اعتماد میں لینے کی کوشش وقت کی اہم ضرورت ہے۔
کشمیر میں اب عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں تو نہیں رہیں اور نہ ہی علحدگی پسند قائدین کو وہ آزادی حاصل ہے لیکن اس کے باوجود ہر کشمیری اپنے قلب کی گہرائیوں میں جو جذبات رکھتا ہے اسے سمجھنے سے حکومتیں قاصر ہیں اور بزور طاقت ان پر حکمرانی کی کوشش کر رہی ہیں جو کہ آئندہ کئی صدیوں تک بھی کامیاب ہونے کے امکانات نہیں ہیںلیکن یہ تاثر دینے کی کوشش کی جار ہی ہے کہ حکومت نے کشمیری عوام بالخصوص نوجوانوں پر اپنا تسلط قائم کرلیا ہے۔ کشمیری نوجوان ہو یا بوڑھا ‘ مرد ہو یا خاتون‘ متمول ہویا غریب ہر کسی کے ذہن میں 370 کی تنسیخ نے جو ضرب لگائی ہے اس کا مندمل ہونا ممکن نہیں ہے لیکن وہ اپنے قائدین اور سپریم کورٹ میں جاری مقدمہ کے فیصلہ سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں۔ارض کشمیر پر ہندستانی افواج کی موجودگی اور اسلحہ کے ساتھ سڑکوں اور قریوں میں کی جانے والی گشت کے عوام عادی ہوچکے ہیں اور وہ اب عسکریت پسندی یا شدت پسندی کا شکار ہونے کو ترجیح نہیں دے رہے ہیں لیکن ان کے دلوں کو حکومت ہند فتح کرنے میں ناکام ہے اور کشمیری عوام کا کرب یہ ہے کہ کشمیر سے حکومت کو محبت ہے لیکن کشمیریوں سے حکومت کو الفت باقی نہیں رہی۔کشمیر میں جہاں حکومت عوامی اعتماد حاصل کرنے میں ناکام ہے وہیں حکومت کی جانب سے اس بات کی ممکنہ کوشش کی جار ہی ہے کہ کشمیر کے گلی کوچوں میں لگائے جانے والے ’آزادی ‘ کے نعرے اب بند ہوجائیں لیکن کشمیری عوام کی خاموشی میں ان نعروں کی گونج شائد حکومت کو سنائی نہ دے رہی ہولیکن 370 کی تنسیخ کے بعد یہ جذبات شدت اختیار کرچکے ہیں۔
پنجاب میں خالصتان تحریک کو کچلنے کے لئے جو منصوبہ تیار کرتے ہوئے عمل کیا گیا تھا وہی سازش اب کشمیر میں جاری ہے اور منشیات کے فروغ کے ذریعہ نوجوانوں کی زندگیو ںکو ضائع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پنجاب میں علحدگی پسند تحریک کو ختم کرنے کے لئے منشیات کو جس طرح سے عام کیا گیاتھا اور یہ حالت ہوگئی کہ پنجاب کے حالات پر ’اڑتا پنجاب‘ فلم بنائی گئی اور اب جن حالات کا شکار کشمیری نوجوان ہونے لگے ہیں انہیں دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ چند برسوں میں ’اڑتا کشمیر ‘ فلم کی تیاری کی جائے گی۔ نوجوانوں کو ان کے ہدف سے دور کرنے اور انہیں ناکارہ بنانے کے لئے کی جانے والی ان کوششوں کو کون انجام دے رہا ہے یہ بات ناقابل فہم نہیں ہے بلکہ جو لوگ ایسا کر رہے ہیں وہ کشمیر کو دہشت گردی سے زیادہ خطرناک دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔ کشمیری نوجوانوں کے لئے حکومت کی جانب سے ہنرمندی کی تربیت فراہم کی جار ہی ہے اور 5لاکھ نوجوانوں کو تربیت فراہم کرنے کا نشانہ مقرر کیا گیا ہے لیکن اگر منشیات کے عادی ہورہے نوجوانوں کی تعداد کا مشاہدہ کیا جائے تو اب تک کی اطلاعات کے مطابق زائد از 10لاکھ نوجوان منشیات کی لعنت کا شکار ہوچکے ہیں اور سرکاری دواخانوں میں ہر 10 منٹ میں منشیات کی لعنت کے شکار ایک نوجوان کو رجوع کیا جانے لگا ہے جو کہ کشمیری نوجوانوں کی حالت کا اندازہ کرنے کے لئے کافی ہے۔کشمیر میں کم از کم جمہوریت کی بحالی اور انتخابات کے انعقاد کے ذریعہ مایوس ہونے والے ان نوجوانوں میں ایک امیدپیدا کی جاسکتی ہے ۔
کشمیر ی عوام اپنی سڑکوں پر جاری سرگرمیوں ‘ حالات اور طلایہ گردی سے اس قدر مانوس ہوچکے ہیں کہ سڑکوں پر مسلح دستے نظر نہ آنے پر وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ کشمیر میں کوئی قد آور اپوزیشن لیڈر موجود ہے۔ اگسٹ کے آخری ہفتہ میں گاندھی خاندان بشمول مسز سونیا گاندھی اور مسٹر راہول گاندھی کے سری نگر میں خانگی دورہ پر ہونے کی کسی بھی ذرائع ابلاغ ادارہ نے توثیق نہیں کی بلکہ ڈرائیور نے سڑک سے مسلح دستوں کو غائب پاکر یہ کہہ دیا کہ سری نگر میں کوئی قدآور اپوزیش لیڈر موجود ہے جو ہندستان سے آیا ہے۔ جب ہم نے تحقیق کی تو اس بات کا پتہ چلا کہ سری نگر میں گاندھی خاندان اپنے شخصی دورہ پر ہے اور ان کے سری نگر سے واپس ہوتے ہی سڑکوں پر دوبارہ مسلح طلایہ گردی میں اضافہ سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حکومت کشمیر کے حقیقی حالات کو کشمیر سے باہر پہنچانے کے حق میں نہیں ہے۔ کشمیر کے صحافی جو اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں وہ بھی اپنے سینے میں ایک تڑپتا ہوا دل رکھتے ہیں اور انہیں بھی کشمیریوں کی حالت پر تکلیف ہوتی ہے لیکن وہ زمینی حقائق کو پیش کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ ان کے اداروں کی پالیسی اب حکومت تیار کرتی ہے ۔کشمیر میں ذرائع ابلاغ کی آزادی نام کی کوئی شئے نہیں ہے اور بیشتر اداروں بالخصوص ’گودی میڈیا‘ سے تعلق رکھنے والے صحافی اپنے ادارہ کے نظریات کے مطابق خبریں ارسال کرنے کے لئے مجبور ہیں۔370 کی تنسیخ کے بعد سیاسی خبروں اور مقامی حالات سے باہری دنیا کو واقف ہونے سے روکنے کے لئے جو اقدامات کئے گئے تھے وہ اپنی جگہ لیکن سرزمین ہندستان کے اٹوٹ حصہ ’کشمیر‘ میں آج بھی کوئی پری پیڈ موبائیل نیٹ ورک کام نہیں کرتا بلکہ چند برس قبل تک سوائے بی ایس این ایل کے کوئی اور کمپنی کا موبائیل کام نہیں کرتاتھا۔
کشمیر کو ملک کا اٹوٹ حصہ قرار دینے اور اسے برقرا ر رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ کشمیری نوجوانوں میں ہندستانی مسلح افواج کے متعلق اعتماد پیدا کرنے کے اقدامات کئے جائیں تاکہ وہ ہندستانی افواج کو اپنا دشمن تصور کرنے کے بجائے انہیں اپنے محافظ کے طور پر قبول کرنے لگیں ۔ عوام بالخصوص نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اگر ان کو مساوی مواقع فراہم کرنے کے اقدامات کئے جاتے ہیںتو ایسی صورت میں آج بھی کشمیر کی اس 70 فیصد آبادی کے دلوں کو فتح کیا جاسکتا ہے جو محض اچھی زندگی ‘ آزاد انہ ماحول‘ انسانی حقوق ‘ اعلیٰ تعلیم اور بہتر روزگار کے عوض پرامن زندگی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔وہ لوگ جو عام شہری کے زمرہ میں آتے ہیں یا وہ لوگ جو سماج کے طبقہ امراء میں شمار کئے جاتے ہیں ان تمام کی یہی خواہش اور کوشش ہے کہ ان کی آزادانہ زندگی میں کوئی خلل نہ ہو اور حکومت ہند ان کے احساسات کی قدر کرتے ہوئے ان کے جائز مطالبات کو قبول کرے کیونکہ بیشتر کشمیریوں کا احسا س ہے کہ وہ صرف عسکریت پسندی کا شکار نہیں ہورہے ہیں بلکہ عسکریت پسندی کے نام پر مسلح افواج کا بھی شکار بن رہے ہیں اور جب تک یہ سلسلہ رکتا نہیں اس وقت تک کشمیری عوام کے دلوں کو فتح کرنا ممکن نہیں ہے ۔ حکومت کشمیریوں کے وسائل میں اضافہ کے بجائے ان کے مسائل میں اضافہ کرتے ہوئے کشمیری عوام سے تعاون کی امید کر رہی ہے ۔
جامع مسجدسری نگر سے گونجنے والی آواز میر واعظ عمر فاروق کی نظر بندی کے 4 سال مکمل ہوچکے ہیں ‘ حریت کانفرنس بظاہر ختم ہوچکی ہے ‘ کشمیری نوجوانوں کو علحدگی پسندبنانے والوں پر قدغن لگائی جاچکی ہے‘ 370 کی تنسیخ نے کشمیریت کی روح کو مجروح کیا ہے لیکن اس کے باوجود کشمیر میں امن برقرار ہے یہ دعوے اور احساس کے ساتھ اگر حکومت ماحول کو ساز گار تصور کررہی تو ان سب کا جواب ایک ہی ہے اور ہر طبقہ یہی کہہ رہا ہے کہ یہ امن اور خاموشی طوفان کی آمد سے پہلے کا سناٹا ہے۔کشمیر میں خدمات انجام دینے والی خفیہ ایجنسیاں متحرک ہیں اور شائد یہ جانتی ہیں کہ کشمیریوں کے دل میں کیا ہے لیکن اپنے آقاؤں کو خوش رکھنے کے لئے زمینی حقائق سے واقف نہ کروا رہی ہوں کیونکہ اس قدر خاموشی اور سب کچھ چھین جانے کا دعویٰ کرنے والی پہاڑی قوم جس نے اپنے بل پر اب تک اپنے حقوق کو منوایا ہے اس سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی یہی بات کشمیر کے ہرذی شعور شہری کو جو کشمیر کو مستقبل کے متعلق متفکر کئے ہوئے ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ کشمیر میں دوبارہ 1989 جیسے حالات پیدا ہوں بلکہ اس کی بھی عین خواہش ایک عام سادہ زندگی جس میں سب کو مساوی حقوق حاصل ہووہ مل جائے کافی ہے۔