ایران اور پاکستان میں کشیدگی

   

ہم نے سادہ دلی سے کام لیا
مہرباں وہ رہے ہیں کم اکثر
دوست سمجھے جانے والے دو ممالک ایران اور پاکستان کے مابین ایسا لگتا ہے کہ صورتحال کشیدہ ہوگئی ہے ۔ دونوںملکوں نے ایک دوسرے کی سرحدات کے اندر فضائی حملے کئے ہیں اور ان دونوں حملوں میں تقریبا ایک درجن افراد کے مرنے کی اطلاعات ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایران اور پاکستان دونوں ہی ممالک نے ادعا کیا ہے کہ انہوں نے ایک دوسرے کے ملک پر نہیں بلکہ اپنے اپنے ملک کے خلاف کام کرنے والے دہشت گرد گروپس کے خلاف یہ کارروائی کرتے ہوئے انہیں نشانہ بنایا ہے ۔ ایران نے پہلے پاکستانی سرحدات میں حملہ کرتے ہوئے دو بچوں کو ہلاک کیا تھا ۔ ایران کا دعوی ہے کہ اس نے ایرانی دہشت گرد گروپس کے خلاف یہ کارروائی کی تھی اور اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس نے اپنے دوست اور پڑوسی ملک پاکستان پر حملہ نہیں کیا ہے ۔ اس کے جواب میں پاکستان نے بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے ایران کی سرحدات میں کسی مقام پر نشانہ بنایا ہے ۔ اس حملہ میں جملہ 9 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں دو بچے بھی شامل ہیں ۔ پاکستان کا بھی کہنا ہے کہ اس نے بھی ایک ایسے دہشت گرد گروپ کو نشانہ بنانے یہ کارروائی کی ہ جو پاکستان کے خلاف کام کر رہا تھا ۔ پاکستان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس گروپ کے تعلق سے مسلسل ایرانی حکام کو مطلع کیا جاتا رہا تھا ۔ اس کی سرگرمیوں کی اطلاعات بھی دی جاتی رہی تھیں ۔ اس کے باوجود ایرانی حکام نے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جس کے نتیجہ میں یہ گروپ آزادانہ کام کر رہا تھا ۔ دونوںملکوں کے مابین اس طرح کی صورتحال پہلے کبھی دیکھی نہیں گئی تھی ۔ دونوںملکوں کے مابین تعلقات ہمیشہ سے اچھے ہی دکھائی دیتے رہے تھے تاہم سرحدات کے قریب کچھ سرگرمیوں کے بارے میں ایک دوسرے کو تشویش ضرور لاحق رہی تھی ۔ اب یہ تشویش اچانک ہی اس قدر بڑھ جانا کہ ایک دوسرے کی سرحدات کے اندر اس طرح کی کارروائیاں کوئی عام بات نہیں کہی جاسکتیں۔ یہ قابل تشویش امر ہے اور خاص طور پر اس لئے بھی ایران اور پاکستان میں تعلقات ہمیشہ سے اچھے رہے تھے ۔ ایسے میں اس طرح کی کشیدگی قابل غور ضرور ہے ۔
موجودہ صورتحال میں مختلف ممالک اپنی اپنی خارجہ پالیسی اور ترجیحات کے مطابق رد عمل ظاہر کر رہے ہیں۔ امریکہ نے جہاں ایران پر تنقید کی ہے اور اس حملے کیلئے ایران کو ذمہ دار قرار دیا ہے وہیں چین کا کہنا تھا کہ دونوں ہی ممالک کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ انتہائی صبر و تحمل سے کام لیں اور صورتحال کو مزید کشیدہ ہونے اور اس طرح کے واقعات کے تدارک کیلئے کام کریں۔ ہندوستان نے بھی انتہائی محتاط اور موثر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اس سارے معاملے کو ایران اور پاکستان کا داخلی مسئلہ قرار دیا ہے ۔ موجودہ صورتحال میں کہا جا رہا ہے کہ دونوں ہی ممالک کیلئے ضروری ہے کہ وہ کسی اشتعال انگیزی کا شکار ہونے سے گریز کریں۔ صورتحال کو پرامن بنائے رکھنے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ دہشت گردانہ سرگرمیوں کے الزامات اور جوابی الزامات مسئلہ کا حل نہیں ہوسکتے ۔ صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کیا جائے ۔ ایک دوسرے کی تشویش کو سمجھا جائے ۔ جائز شکایات پر غور کرتے ہوئے ان کے تدارک کیلئے اقدامات کئے جائیں ۔ کسی بھی حال میں کشیدگی میں اضافہ کے اقدامات سے ہر دو ممالک کو گریز کیا جانا چاہئے ۔ کسی بھی طرح کے ٹکراؤ اور تنازعہ کے اثرات پر بھی دونوں کو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ علاقائی اور باہمی امن و استحکام کی صورتحال کو متاثر کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ اس سے ہر فریق کو اجتناب کرنے اور حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔
جہاں تک دہشت گردانہ سرگرمیوں اور ان کی حوصلہ افزائی کا سوال ہے تو اس طرح کے الزامات دونوں ہی ممالک پر مختلف گوشوں سے عائد کئے جاتے رہے ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک مسلسل ایران پر حوثیوں کی حوصلہ افزائی اور دیگر دہشت گرد گروپس کی امداد کا الزام عائد کرتے ہیں اور پاکستان میں خود کئی دہشت گرد اور تخریب کار گروپس کام کرتے ہیں۔ ایسے میں ان الزامات کی سنگینی کا جائزہ لیتے ہوئے ایران اور پاکستان دونوں ہی کو حالات کو بہتر بنانے کے جذبہ اور مقصد کے ساتھ کام کرنے کی ضرورتحال ۔ کشیدگی میں اضافہ اور ٹکراؤ کی کیفیت نہ دونوں ممالک کیلئے بہتر ہوگی اور نہ ہی سارے علاقہ کیلئے بہتر ہوسکتی ہے۔