ایران پر بائیڈن کی سوچ بھی اوباما جیسی : جان بولٹن

   

صدر بائیڈن نے ایران کیخلاف عائد امریکہ کی پابندیوں میں نرمی کی تو یہ ان کی بڑی غلطی ہوگی، قومی سلامتی مشیر کا انٹرویو

واشنگٹن : ایران عالمی برادری کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔امریکہ کے صدر جو بائیڈن اگرایرانی نظام کے خلاف عائد پابندیوں میں نرمی کرتے ہیں تو یہ ان کی ایک بڑی غلطی ہوگی۔یہ بات امریکہ کے قومی سلامتی کے سابق مشیر جان بولٹن نے العربیہ سے ایک خصوصی انٹرویو میں کہی ہے۔انھوں نے صدر بائیڈن اور ان کو مشیروں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ سابق صدر براک اوباما والی غلطی کا اعادہ نہیں کریں۔ انھوں نے ایران کو خطے کی ایک قوت قرار دیا تھا۔جان بولٹن نے جمعرات کو نشر ہوئے اس تفصیلی انٹرویو میں مختلف موضوعات پر اظہارخیال کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ’’مجھے خدشہ ہے،جوزف بائیڈن کا ایران کی جانب زیادہ مائل ہونا سابق صدر اوباما کی سوچ ہی کا اعادہ ہوگا۔ان کی سوچ یہ تھی کہ ایران ہی خطے کی ایک عظیم قوت ہے اور یہ ایران ہی ہوگا جو مشرق وسطیٰ بھر میں استحکام کی چٹان ثابت ہوگا۔‘‘ان کا کہنا تھا کہ ’’میرے خیال میں یہ سوچ اصل سچائی کے بالکل الٹ ہے مگر اس کا ایران کے عوام یا اس ملک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔چنانچہ یہ سوچ کہ موجودہ نظام کے تحت ایران مشرقِ اوسط میں ایک ذمہ دارانہ کردار ادا کرے گا،بالکل گمراہ کن ہے۔‘‘واضح رہے کہ جان بولٹن ہی نے ایران سے 2015ء میں طے شدہ نیوکلیئر سمجھوتے سے امریکہ کے انخلا میں سب سے زیادہ کردار ادا کیا تھا۔ان ہی کے اصرار پر سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ 2018ء میں اس نیوکلیئر سمجھوتے سے دستبردار ہوگئے تھے اور انھوں نے ایران کے خلاف دوبارہ سخت پابندیاں عاید کردی تھیں۔صدرجوبائیڈن اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے اس ارادے کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ مشترکہ جامع لائحہ عمل (نیوکلیئر سمجھوتے) میں دوبارہ شامل ہونے کو تیار ہیں لیکن اس سے پہلے ایران کو اس سمجھوتے کے تمام تقاضوں کو پورا کرنا ہوگا جبکہ ایران امریکہ سے پہلے پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کررہا ہے۔جان بولٹن نے اس انٹرویو میں ٹرمپ انتظامیہ کی ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ برقراررکھنے کی پالیسی کا دفاع کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ’’ہمیں یہ باور کرایا گیا تھا کہ کثیرجہت پابندیاں جو کام نہیں کرسکی ہیں،وہ امریکہ کی یک طرفہ پابندیاں بھی نہیں کرسکتی ہیں لیکن ہماری پابندیاں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیوں سے زیادہ مؤثر ثابت ہوئی ہیں۔