ایران کا اسرائیل پر حملہ

   

دنیا ہی ڈوب جائے گی اے دل ذرا سنبھل
سیلاب اشک ایک مری چشم تر میںہے
کئی دن کی کشیدگی اور لگاتار دھمکیوں کے بعد بالآخر ایران نے اسرائیل پر ڈرونس اور میزائیل کے ذریعہ حملہ کردیا ہے ۔ کچھ میزائیل اسرائیل کے مختلف شہروں تک پہونچے ہیں اور یروشلم کے آسمان میں بھی ان میزائیلس اور ڈرونس کی وجہ سے دھماکوں کے مناظر دیکھنے میں آئے ہیں۔ اسرائیل اور اس کے دم چھلے ممالک امریکہ ‘ برطانیہ ‘ فرانس اور دیگر نے اسرائیلی حملوں کو ناکام قرار دیا ہے اور یہ دعوی کیا ہے کہ ایران کے تقریبا 99 فیصد میزائیلس اور ڈرونس کو راستہ ہی میں تباہ کردیا گیا ہے ۔ حالانکہ ان دعووں کی سچائی اور حقیقت کی کوئی توثیق نہیںہوئی ہے تاہم یہ ضرور کہا جا رہا ہے کہ صیہونی ممالک اور اس کے حواری ممالک ایران کے حملوں میں ہونے والے نقصانات کی پردہ پوشی کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایران کا دعوی ہے کہ اس کا نشانہ شہری علاقے نہیں تھے اور نہ ہی وہ خواتین و بچوں کو نشانہ بنانا چاہتا تھا ۔ اس کے نشانہ پر کچھ فوجی تنصیبات اور ٹھکانے تھے اور اس نے ان نشانوں پر ضرب لگانے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ اس حملے کے فوری بعد جس طرح سے اسرائیل کی تائید میںمختلف ممالک سامنے آئے ہیں وہ توقعات کے مطابق ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ یہ انتہائی دوہرے معیارات کے علمبردار بن گئے ہیں۔ عالمی دہشت گرد صیہونی ممالک اسرائیل کی جانب سے غزہ شہر میںہزاروں فلسطینیوںکا قتل عام کردیا گیا بلکہ ان کی نسل کشی کی گئی اور خواتین و کمسن بچوں کو تک موت کے گھاٹ اتار دیا گیا لیکن خود ساختہ انسانی حقوق علمبرداروں نے اس پر اسرائیل کی زبانی تنبیہہ تک نہیں کی اور نہ ہی یہ لوگ دہشت گرد اسرائیل پر اس طرح کے جنگی جرائم والے حملے روکنے کیلئے زور دے رہے ہیں۔ اسرائیل ایسا لگتا ہے کہ سارے خطے ہی کو جنگ میں جھونک دینا چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس نے شام میں حملے کرتے ہوئے ایران کے فوجی جرنیلوں کو ہلاک کردیا تھا ۔ ایران کا دعوی ہے کہ اس نے اپنے جرنیلوں کے قتل پر جوابی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیل کی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے ۔ اسرائیل ایسا لگتا ہے کہ ان حملوں کے بعد مزید جارحیت کا مظاہرہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے ۔
عالمی برادری کیلئے اب ضروری ہوگیا ہے کہ وہ دوہرے معیارات اور ڈوغلے پن کو ترک کرے اور انصاف و انسانیت کی بات کرتے ہوئے صیہونی و دہشت گرد مملکت اسرائیل کے خلاف آواز بلند کرے ۔ اسرائیل پر دباؤ ڈال کر اسے مجبور کیا جائے کہ وہ اپنے جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم کو ترک کرتے ہوئے نہ صرف خطہ کے بلکہ دنیا کے امن کیلئے خطرہ نہ بن جائے ۔ عالمی برداری کو اسرائیل پر دباو ڈالنا ہوگا کہ وہ غزہ میں نہتے اور بے یار و مددگار فلسطینیوں کی نسل کشی اور ان کا قتل عام بند کرے ۔ جب تک غزہ میں اسرائیل کی غاصبانہ اور جارحانہ کارروائیوں کو روکا نہیں جاتا اس وقت تک علاقہ میں امن و امان کا قیام ممکن نہیں ہوسکتا ۔ ایران نے اسرائیل پر جو حملہ کیا ہے وہ دنیا بھر کے انصاف پسند عوام کے تقاضوں کی تکمیل کہا جاسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ ایران کو اپنے فوجی جرنیلوں کے قتل پر جوابی کارروائی کرنے کا اقوام متحدہ چارٹر میں بھی حق دیا گیا ہے ۔ اسرائیل نے اسی کا حوالہ دیتے ہوئے یہ حملہ کیا ہے ۔ امریکہ ہو یا برطانیہ ہو یا پھر دوسرے مغربی ممالک ہوں یہ دنیا بھر میںانسانی حقوق کی دہائی دیتے ہیں لیکن یہ دنیا کے بد ترین ناانصافی کرنے والے ممالک ہیں۔ ان ہی ممالک نے اپنے عزائم کی تکمیل کا ذریعہ اسرائیل کو بنایا ہوا ہے اور اسے ہتھیار دے رہے ہیں۔ اس کی فوجی مدد کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ناانصافیوں اور نسل کشی جیسے اقدامات میں بھی کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوئے ہیں۔ انہیںیہ ڈوغلا پن ختم کرنا ہوگا ۔
اسرائیل کے دعووں کے مطابق ایران کے حملوں کو بھلے ہی ناکام بنادیا گیا ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایران نے اپنے حق مدافعت کا استعمال کیا ہے ۔ اس نے جارحیت کو روکنے کیلئے کارروائی کی ہے ۔ اب عالمی برادری اور کٹھ پتلی ادارے اقوام متحدہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حرکت میںآئے ۔ انصاف کے تقاضوں کی تکمیل کی جائے ۔ انسانیت کو شرمسار ہونے سے بچایا جائے اور اسرائیل کو اس کی دہشت گردانہ کارروائیوںسے روکنے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ جب تک عالمی برادری ایسا نہیں کرتی اس وقت تک اسرائیل کا وجود ہی سارے خطہ اور امن عالم کیلئے ایک مسلسل خطرہ بنا رہے گا ۔