ایسی ہی ذہنیت حقوق اِنسانی کو نقصان پہنچاتی ہے

   

پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر داخلہ

وزیراعظم نریندر مودی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے قومی کمیشن برائے حقوق انسانی کے 16 ویں یوم تاسیس کے موقع پر اپنے خطاب میں کچھ یوں کہا: حالیہ برسوں میں بعض لوگ اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے اور انہیں اسے ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے اپنے انداز میں حقوق انسانی کی تشریح کرنے لگے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں ایک واقعہ میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں نظر آتی ہیں لیکن اسی نوعیت کے دوسرے واقعہ میں ان لوگوں کو حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں نظر نہیں آسکتی۔ اسی طرح کی ذہنیت سے حقوق انسانی کو بہت نقصان ہوتا ہے۔ وزیراعظم نے جو کچھ کہا ، وہ بالکل درست ہے، اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ سال 1948ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے حقوق انسانی کے عالمی ڈیکلیریشن یا قرارداد کو اپنایا، اس کی دستاویزات میں واضح طور پر کہا گیا کہ ہر انسان حقوق اور آزادی کے معاملے میں یکساں ہے اور انسانی حقوق و آزادی کا مستحق ہے۔ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کی جانب سے منظورہ قرارداد میں 1948ء کے دور کی دنیا کی حقیقت کو سمویا گیا تھا اور یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس
(UDHR)
کو ایک اہم دستاویزی شکل دینے کی ضرورت کو منصفانہ سمجھا گیا کیونکہ حقوق انسانی کو جب بھی نظرانداز کیا گیا۔ اسے حقارت سے مسترد کردیا گیا۔ اس کا نتیجہ درندگی اور سفاکانہ کارروائیوں کی شکل میں برآمد ہوا جس نے انسانیت کے ضمیر کو دلبرداشتہ و برہم کردیا۔ بہرحال 1948ء میں جو صحیح تھا، وہ 2021ء میں صحیح ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بعض ممالک میں حقوق انسانی کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے، اس کا احترام کیا گیا ہو لیکن بعض ملکوں بشمول ہمارے ملک ہندوستان میں حقوق انسانی کو بد سے بدتر کردیا گیا۔ اسے انتہائی حقارت کے ساتھ نظرانداز کردیا گیا۔ اس کی دھجیاں اُڑائی گئیں۔
چلئے! شروع کرتے ہیں۔ 3 اکتوبر 2021ء سے اور دیکھتے ہیں کہ اس دن اترپردیش کے ضلع لکھیم پور کھیری میں آخر کیا ہوا تھا؟ دراصل وہاں کسان مودی حکومت کی جانب سے بناء کسی سے صلاح و مشورہ کے انتہائی عجلت میں پارلیمنٹ کے ذریعہ منظورہ تین زرعی بلز کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ ملک بھر میں کسان ان زرعی بلز کو کسان دشمن قرار دیتے ہوئے انہیں واپس لینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ لکھیم پور کھیری میں کسانوں کے پرامن احتجاج کے دوران ایک گاڑیوں کا قافلہ (جس میں سے دو کی نشاندہی کرلی گئی ہے) بڑی تیز رفتار سے چلائی جارہی تھیں۔ کسان آگے تھے اور وہ تیز رفتار گاڑیاں عقب سے آرہی تھیں۔ ان گاڑیوں نے احتجاجی کسانوں کو روند ڈالا۔ انہیں کچل ڈالا۔ نتیجہ میں چار احتجاجی کسان اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے۔ چار کسانوں کی موت کے ساتھ ہی تشدد پھوٹ پڑا۔ برہم ہجوم نے کسانوں کو روند کر آگے بڑھ جانے والی کار میں سوار تین افراد کو پکڑ لیا اور مار مار کر انہیں ہلاک کر ڈالا۔ اس واقعہ میں ایک صحافی کی بھی موت ہوگئی۔ بعد میں خود مرکزی مملکتی وزیر داخلہ اجئے مشرا نے اعتراف کیا کہ جس گاڑی تلے کسانوں کو روندا گیا وہ ان کی اپنی کار تھی۔ اس دوران کسانوں اور دیگر نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ کسانوں کو روندنے والی کار میں مرکزی مملکتی وزیر داخلہ کا بیٹا بھی سوار تھا۔ مذکورہ واقعہ میں حقوق انسانی کی سنگین خلاف ورزی کا ارتکاب کیا گیا حالانکہ
UDHR
کی دفعہ 19 اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ ہر کسی کو اظہار خیال، اظہار رائے کی آزادی کا حق حاصل ہے۔ اس حق میں بناء کسی مداخلت کے اپنی رائے رکھنا بھی شامل ہے جبکہ آرٹیکل 20 کے مطابق ہر کسی کو پرامن طور پر جمع ہوئے اور ایک دوسرے سے جڑنے کا حق حاصل ہے چنانچہ ان حقوق انسانی سے استفادہ کرتے ہوئے کسان وہاں پرامن طور پر جمع ہوئے اور مارچ شروع کیا۔ ان کا مارچ دراصل زرعی قوانین پر ان کا اظہار خیال تھا۔ آپ کو بتا دوں کہ آرٹیکل 3 اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ ہر کسی کو حق زندگی، حق آزادی اور فرد کی سلامتی کا حق حاصل ہے لیکن تیز رفتار گاڑی نے فوری طور پر تین قیمتی جانوں کا خاتمہ کردیا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ لکھیم پور کھیری میں انسانی حقوق کی صحیح خلاف ورزی پر فوری آواز بلند کرنے کی بجائے وزیراعظم نریندر مودی ہنوز خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اور ان کی یہ خاموشی آج تک برقرار ہے۔

جہدکار دہشت گرد ہیں
چلئے! سال 2018ء میں واپس جاتے ہیں جب مہاراشٹرا کے بھیما کورا گاؤں میں ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ 6 جون 2018ء کو پولیس نے اسی الزام کے تحت 5 سماجی کارکنوں کو گرفتار کیا کہ ان لوگوں نے جنوری 2018ء میں بھیماکورا گاؤں میں ذات پات پر مبنی تشدد برپاکرکے لوگوں کو اکسایا ان پانچوں میں ایک وکیل، انگریزی کے ایک پروفیسر، ایک شاعر و ناشر اور حقوق انسانی کے دو جہدکار شامل ہیں، وہ ہنوز جیلوں میں بند ہیں۔ ضمانتوں کیلئے ان کی درخواستیں بار بار مسترد کی جارہی ہیں۔ (28 اگست 2018ء کو اس معاملے میں مزید 5 سماجی جہد کاروں کو گرفتار کیا گیا)قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے وکیل سریندر گاڈلنگ نے انہیں سائبرلا اور انسانی حقوق کے بارے میں پڑھنے یا ان کا جائزہ لینے کی اجازت دینے کی درخواست کی لیکن ان کی درخواست مسترد کردی گئی۔ انگریزی کی پروفیسر مس شوما سین مسلسل ایک برس تک اپنے سیل میں کرسی نہ رہنے کی شکایات کرتی ہیں اور ایک سال سے زائد عرصہ گذر جانے کے بعد ایک کرسی فراہم کی گئی۔ مس شوماسین گٹھیا یا آرتھریٹس سے متاثر ہیں۔ انہیں فرش پر ایک پتلی چٹائی پر سونے کیلئے مجبور کیا گیا۔ ابتدائی مہینوں میں انہیں خاطی قرار دیئے گئے۔ قیدیوں میں رکھا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ حقوق انسانی کے ایک اور جہدکار مسٹر مہیش راوت
Alcerative Colitis
میں مبتلا ہیں اور جب ارکان خاندان نے ان کیلئے آیورویدک ادویات لائیں اس کے استعمال کی اجازت سے بھی انکار کردیا گیا۔ شاعر و ناشر مسٹر سدھیر دھوالے سے ملنے کی ان کے رفقاء اور دوستوں کو اجازت نہیں دی گئی اور بہانہ یہ بنایا گیا کہ وہ لوگ ان کے خونی رشتے دار نہیں ہیں۔ 2 جنوری 2021ء کو ایک صحافی مسٹر پرتیک گوئل نے بھیماکورا گاؤں کیس کے ملزمین کے خلاف فوجداری کارروائی میں کی گئی 16 حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کے بارے میں دستاویزات تیار کی جس میں بناء کسی وارنٹ کے تلاشی اور ضبطی، ٹرانزٹ ریمانڈ کے بناء ایک قیدی کو زبردستی لے جانا ، قیدی کے پسند کے لحاظ سے وکیل کے تقرر سے انکار، ایک قیدی کے اسپتال میں علاج کا خرچ برداشت کرنے سے ریاست کا انکار، ایک قیدی کو اس کی میڈیکل رپورٹس کی فراہمی سے انکار، آرتھریٹس سے متاثرہ ایک خاتون قیدی کو ان کے سیل میں کرسی دینے سے انکار، فل آستین سوئٹر کی فراہمی سے انکار، سوامی وویکانندا کی کتابوں کی فراہمی سے انکار، مہاراشٹرا پولیس سے این آئی اے کو من مانے طریقوں سے مقدمہ کی منتقلی (قومی تحقیقاتی ایجنسی یا این آئی اے مرکزی حکومت کے تحت کام کرتی ہے اور اسے دہشت گردانہ کارروائیوں اور جرائم کی تحقیقات کا کام تفویض کیا جاتا ہے) ، مقدمہ کی منتقلی مہاراشٹرا میں بی جے پی حکومت کی جگہ ایک نئی حکومت کی تشکیل کے دو دن بعد کی گئی ۔ حد تو یہ ہے کہ ماں کی آخری رسومات میں شرکت کیلئے جب ایک قیدی نے درخواست کی ، تب بھی اسے پیرول پر رہا کرنے سے انکار کردیا گیا۔ بہرحال یہ تمام حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کی مثالیں ہیں۔
مقدمہ سے قبل سزا
یوڈی ایچ آر کی متعلقہ دفعات خاص طور پر آرٹیکل 5 میں کہا گیا ہے کہ کسی کو بھی ظالمانہ، جابرانہ، غیرانسانی اور توہین آمیز سلوک یا سزا سے نہیں گزارا جانا چاہئے۔ اسی طرح آرٹیکل 9 میں کہا گیا ہے کہ کسی کی بھی من مانی گرفتاری ، حراست یا جلاوطنی بھی نہیں کی جانی چاہئے۔ آرٹیکل 10 یہ کہتا ہے کہ ہر کسی کو مساویانہ اور منصفانہ عوامی سماعت وہ بھی ایک آزادانہ و غیرجانبدارانہ ٹریبیونل کی سماعت کا حق حاصل ہے، چاہے اس پر کسی قسم کے فوجداری الزامات درج ہوں۔ یو ڈی ایچ آر کی دفعہ 11کے مطابق کسی پر بھی کسی بھی قسم کے الزامات عائد کئے جائیں، اس کے باوجود وہ خاطی ثابت ہونے تک اسے بے قصور تصور کیا جائے۔ جہاں تک میری معلومات کا سوال ہے، پچھلے تین برسوں میں وزیراعظم نریندر مودی نے بھیماکورے گاؤں کیس یا پھر اس کیس میں اس کے تحت کام کرنے والی این آئی اے کی جانب سے الزامات وضع کرنے میں تاخیر پر ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ شاید انہوں نے اپنا منہ کھولنا ضروری نہیں سمجھا۔ میں پوری طرح وزیراعظم سے اتفاق کرتا ہوں جب انہوں نے کہا کہ اس طرح کی ذہنیت انسانی حقوق کو بہت نقصان پہنچاتی ہے۔