ایس پی ۔ بی ایس پی اتحاد

   

ہے وقتی فائدہ ہی یہاں مقصد محبت کا
سیاست کی یہ دنیا ہے یہاں ہے دوستی وقتی
ایس پی ۔ بی ایس پی اتحاد
ملک میں آئندہ لوک سبھا انتخابات کی تیاریوںکا عملا آغاز ہوچکا ہے ۔ ملک کی سب سے بڑی اور سیاسی اعتبار سے سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ریاست اترپردیش میں دو اہم ریاستی جماعتوںسماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی نے آپس میںاتحادکا فیصلہ کرلیا ہے ۔ یہ دونوںجماعتیں ریاست میں مقبولیت رکھتی ہیں۔ فی الحال یہ اقتدار سے دور ہیں لیکن ان دونوں نے اپنے اپنے بل پر ریاست میں حکومت بنائی تھی ۔ حالیہ عرصہ میں ہوئے گورکھپور اور پھولپور لوک سبھا حلقوں کے ضمنی انتخابات میں بھی ان جماعتوںنے متحدہ مقابلہ کیا تھا اوراس میںانہیںشاندار کامیابی حاصل ہوئی تھی ۔ یہ دونوںحلقے ایسے ہیںجہاں بی جے پی کو شکست دینا آسان نہیںسمجھا جاتا تھا لیکن ان دونوں جماعتوں کے اتحاد نے اس کام کو بھی کر دکھایا تھا ۔ یہ قیاس آرائیاںگذشتہ کچھ مہینوں سے جاری تھیںکہ ان دونوں جماعتوں کے مابین مفاہمت کیلئے بات چیت ہو رہی ہے ۔ کانگریس بھی حالانکہ ان جماعتوں کے ساتھ اتحاد میں شامل رہتے ہوئے اسے اور بھی وسیع کرنا چاہتی تھی لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان دونوںجماعتوں نے کانگریس کو نظر انداز کردیا ہے ۔ ریاست میںکانگریس کی عددی طاقت کو دیکھتے ہوئے ان جماعتوں کا فیصلہ ٹھیک ہی دکھائی دیتا ہے لیکناگر کانگریس کو بھی اس اتحاد میںشامل کرلیا جاتا تو شائد بی جے پی کیلئے مشکلات میںمزید اضافہ ہوجاتا اور اسے مزید زیادہ نشستوںپر شکست دی جاسکتی تھی ۔تاہم ان جماعتوں نے کانگریس کیلئے قدرے نرم موقف بھی برقرار رکھا ہوا ہے اور انہوں نے امیٹھی اور رائے بریلی سے امیدوار نامزد نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ان حلقوں سے کانگریس صدر راہول گاندھی اور یو پی اے صدر نشین سونیا گاندھی مقابلہ کرتی ہیں۔ یو پی میںلوک سبھا کی جملہ 80 نشستیں ہیںاور جو اطلاعات ہیںان کے مطابق بہوجن سماج پارٹی اور سماجوادی پارٹی فی کس 37 نشستوں سے مقابلہ کرینگی ۔دو نشستیں کانگریس کیلئے چھوڑ دی گئی ہیں اور چار مزید نشستوں کیلئے اجیت سنگھ کی راشٹریہ لوک دل اور اپنا دل کو بھی جگہ دینے کی کوشش کی گئی ہے لیکن یہ ان جماعتوں کے اعتبار سے کافی نہیںسمجھی جاسکتی ۔
کانگریس ‘ راشٹریہ لوک دل اور اپنا دل جیسی جماعتوںکو بھی اس اتحاد میں شامل کرتے ہوئے ایک وسیع اتحاد تشکیل دیا جاتا تو شائد نتائج پر اسکا زیادہ اثر ہوتا لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ محض سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے اتحاد سے بھی بی جے پی کیلئے مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ آئندہ لوک سبھا انتخابات کیلئے اپوزیشن جماعتوں کے مابین اتحاد کی جو کوششیں ہو رہی ہیں وہ ایک عظیم اتحاد تشکیل دینے کی ہے لیکن علاقائی اور ریاستی سطح پر اہمیت کی حامل جماعتیں بھی اگر آپس میں اتحاد کرتی ہیں تو اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اورا س کو عظیم اتحاد کی تشکیل کی راہ میںر کاوٹ نہیںسمجھا جانا چاہئے ۔ جن ریاستوں میں کانگریس کی صورتحال کمزور ہے اور جہاں اس کے کیڈر میںکوئی استحکام نہیںہے وہاںاسے ریاستی اور علاقائی جماعتوںکو اہمیت ضرور دینی چاہئے تاکہ سکیولر اور مخالف بی جے پی ووٹوںکو تقسیم ہونے سے بچایا جاسکے اور بی جے پی کے عزائم کو شکست دی جاسکے ۔بی جے پی بھی اپنے زر خرید گروپوں اور جماعتوںکو استعمال کرتے ہوئے سکیولر ووٹوں کو تقسیم کروانے کی کوشش کریگی اور ایسی کوششوں کو ناکام بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ہر جماعت کو اس کی طاقت کے مطابق نمائندگی دی جائے اور کچھ جماعتیںا پنے طور پر جذبہ ایثار بھی اختیار کریں۔
کچھ ریاستیں ایسی بھی ہیںجہاںکانگریس ہی بی جے پی کا واحد متبادل ہوسکتی ہے اور ہو بھی رہی ہے ایسی ریاستوں میں دوسری علاقائی جماعتوںکو اور کم اثر رکھنے والی جماعتوںکو کانگریس کی تائید و حمایت سے کام کرناچاہئے ۔ جب تمام جماعتیںاپنی سیاسی انا اور بالادستی کے جذبہ سے گریز کرتے ہوئے محض ملک کو فرقہ پرست اتحاد کی حکومت سے نجات دلانے کے جذبہ سے کام کرینگی تو اس راہ میںکوئی رکاوٹ نہیںآسکتی ۔ اس کیلئے ہر جماعت کو اپنے طور پر اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی اور ساتھ ہی اپنے حصہ کی قربانی اور ایثار کیلئے بھی تیار رہنا چاہئے ۔ جب تمام جماعتیں مل کر ایسی کوشش کرینگی تو کوئی عجب نہیںہے کہآئندہ لوک سبھا انتخابات کے نتائج بی جے پی کیلئے حیرت انگیز اورچونکا دینے والے ہونگے ۔ اگر نتائج بی جے پی کو چونکا دینے والے ہونگے تو اسکا سہرا تمام اپوزیشن جماعتوں کے سر ہوگا ۔