این آر سی۔ قحبہ خانہ کے 200قحبہ گری ورکرس کا درد’میں ان کے لئے مرچکی ہوں‘

,

   

قومی رجسٹرار برائے شہریت جاری ہونے کے بعد سیلچر میں ایک قحبہ خانہ کی 200ورکرس کا مستقبل غیریقینی ہوگیاہے۔

گھر والوں کی جانب سے بیدخل کردئے جانے اور اپنی شہریت ثابت کرنے کے لئے دستاویزات نے ہونے کی وجہہ سے ان کے لئے مشکل کھڑی ہوگئی ہے۔

سیلچر۔آسام کے سیلچر میں دو سو کے قریب فحاشی میں ملوث عورتوں کا مستقبل ادھار پر لٹکا ہوا ہے۔

یہ تمام لوگ قومی رجسٹرار برائے شہریت میں اپنے نام درج کرانے سے قاصر رہے ہیں۔قومی رجسٹرار برائے شہریت جاری ہونے کے بعد سیلچر میں ایک قحبہ خانہ کی 200ورکرس کا مستقبل غیریقینی ہوگیاہے۔

گھر والوں کی جانب سے بیدخل کردئے جانے اور اپنی شہریت ثابت کرنے کے لئے دستاویزات نے ہونے کی وجہہ سے ان کے لئے مشکل کھڑی ہوگئی ہے۔

اور انہیں یا تو تحویلی کیمپ یا پھر کسی نامعلوم جگہ روانہ کئے جانے کا خطرہ منڈلارہا ہے۔

و ہاں کی ایک سیکس ورکرسنالی داس(بدلا ہوا نام) کا کہنا ہے کہ ”اب میں ڈری ہوئی ہوں کیونکہ حکومت مجھے دوسرے ملک بھیج سکتی ہے‘

یاپھر ہمیں تحویلی کیمپ میں رکھا جاسکتا ہے۔ حالانکہ وہ این آرسی میں نام شامل کروانے کے لئے مضطرب تھیں مگر دستاویزات نہ ہونے کی وجہہ سے یہ کام نہیں ہوسکا

۔سنالی آگے بتاتی ہیں کہ”میرے گھر والوں نے مجھے کوئی اثر دار دستاویزات حوالے نہیں کئے کیونکہ میں ان کے لئے مار چکی ہوں‘۔

جب پوچھا گیاکہ وہ سیلچر میں کیسے پہنچی تو سنالی نے بتایا کہ ”کچھ سال پہلے میرے ایک رشتہ دار نے گوہاٹی میں نوکری کے لالچ دیااور میں اس کیساتھ گھر چھوڑ کر چلی گئی۔

حالانکہ اس نے مجھے سیلچر کے ایک قحبہ گری کے اڈے میں بھاری رقم کے عوض فروخت کردیا‘۔

یہ کہانی سونالی کی ہی نہیں ہے۔ اس کاروبار کی ایک او رشکار پنکی(بدلا ہوا نام) کا کہنا ہے کہ ”میں نے این آ رسی کے عمل کے دوران گوہاٹی میں اپنے گھر والوں سے قانونی دستاویزات حاصل کرنے کے لئے رابطہ کیا لیکن انہوں نے کوئی تعاون نہیں دیکھا یا‘۔

پیر کے روز ہمارے ساتھی ٹائمز آف انڈیا کے ساتھ با ت چیت میں ضلع قانونی خدمات اتھاریٹی(ڈی ایل ایس اے) کے رکن توہانی شرما نے کہاکہ ”ڈی ایل ایس اے کے اراکین نے این آرسی کے دوران قحبہ گری کے اڈے پر موجودہ سیکس ورکرس سے تازہ ترین این آر سی کی جانکاری دی تھی۔

حالانکہ ان میں سے کئی نے بتایاکہ گھر والوں کی جانب سے پہچان سے انکار کے بعد وہ این آر سی کے لئے درخواست دینے میں ناکام رہے ہیں‘۔

غیرملکی ٹربیونل میں مذکورہ سیکس ورکرس کے لئے آواز اٹھانے کاکوئی مطلب ہی باقی نہیں رہ گیاہے کیونکہ ان کے پاس درکار دستاویزات نہیں ہیں۔

انہوں نے ساتھ ہی کہا ہے کہ ”مجھے نہیں لگتا کہ ان عورتوں کو تحویلی کیمپ میں بھیجا جائے گاکیونکہ پولیس کے لئے علاقے میں داخل ہوکر ان کی پہچان کرنا اور گرفتار کرنا عملی طور سے ناممکن ہوگا“