این آر سی ہندوستان کی اولین ترجیح اب نہیں بن سکتی

,

   

آسام میں ناکام ہونے والی این آر سی کی مشق کے بعد حکومت کوقومی سطح پر اس کے نفاذ کے اثرات کو سمجھ لینا چاہئے

آسام میں بڑے پیمانے پر شہریوں کی شناخت کی مشق کا سلسلہ جاری رکھا‘ جس میں 50,000لوگ شامل رہے اور مرکزی خزانہ پر 16,000کروڑ روپئے کی لاگت لگی ہے۔

یہ فصل کی کٹوائی ثابت ہوا۔

انیس لاکھ لوگوں کو ریاست سے بیدخل کردیاگیا۔ اس میں زیادہ ترکا تعلق اکثریتی طبقات سے ہے‘ جنھیں ابتدائی کرنے والوں نے شرمند ہ کردیاہے۔ مذکورہ ساری مشق کا صدمہ کا ان پر اثر تصور کیاجاسکتا ہے۔

ایک اسکول اسٹوڈنٹ سے استفسار کیاجائے کہ کلاس روم کے باہر بھیجنے کا اس پر کیااثر ہوتا ہے۔

پھر انداز کریں ایک ریاست جہا ں پر رہ رہے ہیں وہاں سے آپ کو سخت گیر انداز میں بیدخل کردیاجائے‘ جہاں پر آپ کی سالوں سے جڑیں ہیں اور آپ کوبے بسی کے عالم میں ڈال دیاہے۔

کسی ایک نے سونچا ہوگا کہ آسام میں این آرسی کی مشق اور اس کی منطق اور عمل پر دوبارہ سے سونچنے کے لئے توقف کامعاملہ ہے۔

ایسا نہیں ہمارے قابل فخر ہوم منسٹر کے لئے‘ جوکام ان کا ہے‘ اس کے بجائے وے ایک قومی مشق کو اگے لے جانے کے لئے توقف کریں گے۔منطق یہ ہے کہ کیونکہ ہم نے ایک چھوٹی ریاست میں 35.4ملین لوگوں کے ساتھ لاگو کیاہے تو 1300ملین لوگوں تک سارے ملک میں اس کو پھیلانے کے لئے توسیع دیں گے۔

یہ صرف توقع کی جاسکتی ہے کہ آسام کے معاملے کی طرح نہیں‘ یہ بڑی مشق اگر کی گئی تو‘ اس اتنا مشکل نہیں ہوگی جو دوبارہ تصدیق کی ضمانت پر مشتمل ہے۔

مذکورہ ملک اس کے متحمل نہیں ہے۔ ایک سیکنڈ کے لئے این آر سی کا ائیڈکا خیرمقدم کیاجاسکتا ہے‘ بشرطیکہ کے اسکو ہماری ترجیحات کی رائے سے ترتیب دیا جانا چاہئے۔

سیاسی نقطہ نظر کے پیش نظر سرحدوں کے پار سے لوگوں کا غیرقانونی داخلہ روکنے کے لئے‘ ملک کی جغرافیائی صفائی کو یقینی بنانا ایک ذمہ داری ہے۔

یہ سیاسی کشمکش انتخابی قسمت پر منحصر ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستا ن اپنے ثقافتی اقدار کے پیش نظر سالو ں سے دنیا میں مشہور ہے۔

اس کے مقابلے نسلی اور مسلکی عقائد‘ یہودیت‘ عیسائیت اور اسلام کی جڑیں بھی اس زمین گہرائی تک پیوست ہیں اسکی وجہہ ہم آہنگی او رآپسی بھائی چارے کا بول بالا ہے۔

دوسری طرف اس کے منفی اثرات یوروپی قومیت اوردنیاکے دیگر حصوں میں گہرائی تک چلے گی جس کے نتیجے میں دوسری عالمی جنگ رونما ہوئی تھی