این آر سی …ایک حقیقت پسندانہ جائزہ

   

مولانا سید احمد ومیض ندوی
این آر سی کی نامعقولیت پر کسی قسم کے دلائل وشواہد کی چنداں ضرورت نہیں ہے، اس کے نقصانات کا دائرہ صرف مسلمانوں ہی تک محدود نہیں، بلکہ اس سے جہاں ملک کا ہر باشندہ متأثر ہوگا وہیں ملکی معیشت پر بھی اس کے بڑے خطرناک اثرات مرتب ہوں گے، کون نہیں جانتا کہ اس و قت ہمارا ملک تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزررہا ہے، جی ڈی پی کی سطح آخری حد کو پہونچ چکی ہے، کروڑوں نوجوان بے روزگاری کی مار برداشت کررہے ہیں، ایسے میں این آر سی کراکراربوں کا سرمایہ فضول جھونکنا ملک کو مزید کنگال کرنا ہے جس کا ملک متحمل نہیں ہے، آسام کے تین کروڑ تیس لاکھ افراد کی این آرسی میں دو ہزار کروڑ روپئے صرف ہوئے، اگر پورے ملک میں این آرسی لاگو کیا جائے گا تو ایک ارب تیس کروڑ افراد کی این آرسی میں ملک معاشی بحران کی اس قدر گہری کھائی میں گر جائے گا کہ جہاں سے اٹھنا محال ہوجائے گا۔
این آرسی اور سی اے اے کاآپسی ربط
حکومت کا کہنا ہے کہ این آرسی کا سی اے اے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، جب کہ یہ صریح جھوٹ ہے، حالیہ لوک سبھا انتخابات کے موقعہ پر ایک سے زائد مرتبہ وزیر داخلہ کہہ چکے ہیں کہ این آر سی سے پہلے سی اے اے لایا جائے گا، سی اے بی جو صدر جمہوریہ کی دستخط کے بعد سی اے اے بن چکا ہے کا مقصد یہ ہے کہ مذکورہ تین ممالک سے جتنے غیر قانونی غیر مسلم پناہ گزیں ہوں گے پہلے انہیں سی اے اے کے ذریعہ ہندوستانی شہریت دے دی جائے گی اس کے بعد این آر سی نافذ ہوگا، جس کے کاغذات مطلوبہ معیار کے نہ ہوں گے اسے در انداز یا گھس پیٹھیا مان کر(Detention Center)حراستی مراکز میں ڈال دیا جائے گا، ایسی صورت میں یہ حراستی مراکز صرف مسلمانوں کے لیے ہوں گے، این آرسی اور سی اے اے کو ایک دوسرے سے لا تعلق بتانا ایک مغالطہ آمیز دروغ گوئی ہے، دونوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے، سی اے اے کا مقصد غیر مسلم طبقہ کو صاف بچا لینا ہے،اس سے غیر مسلم طبقات آخر کار بچ جائیں گے، لیکن بہر حال ابتدا میں کاغذات کی فراہمی کے جو مراحل ہوں گے ان سے ہر ہندوستانی باشندے کو گزرنا ہوگا، اس لیے کہ این آرسی کے تحت ہندوستان کے سارہے ہی باشندوں سے مطلوبہ کاغذات طلب کئے جائیں گے، جہاں تک غیر مسلموں کا تعلق ہے تو ان سے صرف دستاویز طلب کئے جائیں گے، البتہ مسلمانوں سے درج ذیل کاغذات مانگے جائیں گے۔
(۱) زمین ملکیت کاغذات(۲)تاریخ پیدائش(۳) گورنمنٹ اسکول سرٹیفیکٹ (۴) ملازمت کے دستاویزرات(۵) بینک اکاؤنٹ (۶) شادی سرٹیفیکٹ (۷) پرانی ووٹر لسٹ۔
این آرسی کیا ہے؟
این آرسی در اصل نیشنل رجسٹر آف سٹیزن شپ کا مخفف ہے، جسے آپ قومی شہری رجسٹر کہہ سکتے ہیں، سی اے اے CITIZENSHIP AMENDMENT ACT کا مخفف ہے، اردو میں اسے شہری ترمیمی قانون کہا جاتا ہے، یہ دونوں قانون زیادہ وقفہ کے بغیر پارلیمنٹ سے پاس ہوچکے ہیں، سی اے اے در اصل این آرسی کا پیش خیمہ ہے، جس کا مقصد افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے جو بھی غیر مسلم ۲۰۱۴ء سے پہلے ہندوستان میں آکر پناہ گزیں ہوئے انہیں شہریت دینا ہے، اس قانون کی رو سے ان ممالک سے آئے سارے غیر مسلم چاہے وہ عیسائی ہوں کہ ہندو سکھ وغیرہ وہ ہندوستان کی شہریت پاسکیں گے، اورہر وہ شخص اس کی زد میں آئے گا جس کا دین اسلام سے تھوڑا بھی تعلق ہو، شیعہ، قادیانی، مہدوی اور خوجہ وغیرہ سب پر اس قانون کا ہتھوڑا چلے گا، حکومت سی اے اے لاکر آسام میں لاگو کی گئی این آرسی کی ناکامی چھپانا چاہتی ہے، بھاجپا کا خیال تھا کہ چوں کہ آسام میں آئے سارے گھس پیٹھیے مسلمان ہیں، اس لیے وہاں این آرسی لاگو کرکے انہیں حراستی کیمپوں میں گھسیڑ دیا جائے گا، بی جے پی اور آر ا یس ایس روز اول سے چلا رہے تھے کہ بنگلہ دیشی سرحد سے اتصال کے سبب آسام میں غیر ملکیوں کی تعداد زیادہ ہے، انہیں ملک سے نکال باہر کردینا چاہیے، ان کا خیال تھا کہ سارے کے سارے گھس پیٹھیے مسلمان ہی ہوں گے، لیکن جب این آرسی لاگو کی گئی تو غیر ہندوستانی مقیمین کی کل تعداد ۱۹؍ لاکھ میں ۱۲؍ لاکھ غیر مسلم نکلے، جب کہ مسلمان ۷؍ لاکھ سے متجاوز نہ ہوئے، این آرسی کے یہ نتائج بی جے پی پروپیگنڈہ کے سراسر خلاف آئے، جس سے بی جے پی قائدین کے پیروں تلے زمین کھسک گئی، آخر کار غیر مسلموں کو این آرسی کی زد سے بچانے کے لیے سی اے اے بنایا گیا۔
این آرسی کی حمایت میں بودے دلائل
این آرسی کے جواز پر یہ لنگڑی دلیل پیش کی جارہی ہے کہ اس کا مقصد تین ممالک کی مظلوم اقلیت کو ملک میں شہریت دینا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان کے پڑوس میں صرف مذکورہ تین ہی ممالک کی اقلیتیں مظلوم ہیں؟ کیا سری لنکا میں تمل مظلوم نہیں ہیں؟ اورکیابرما کی مظلوم اقلیت کو ساری دنیا نہیں جانتی؟ بھوٹان اور نیپال میں بھی تو اقلیتیں پائی جاتی ہیں، آخر انہیں کیوں شامل نہیں کیا گیا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ ان مذکورہ ممالک کے لوگوں کو آپ ملک میں کہاں ٹھہرائیں گے؟ کیا اتنی بڑی تعداد کے لیے آپ ملازمت اور دیگر سہولیات فراہم کرسکیں گے، جب کہ خود ملک کے اصل لاکھوں باشندے ملازمت اور روزگار سے محروم ہیں، علاوہ ازیں یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ برسوں سے مقیم مقامی باشندوں کو شہریت سے محروم کردیا جائے اور جن کا ملک سے کوئی تعلق نہیں ہے انہیں شہریت دی جائے، تعصب وبدنیتی کے حامل فرقہ پرست قائدین این آرسی پر کتنی ہی دلیلیں پیش کریں لیکن یہ ملک کے لیے انتہائی تباہ کن ہے، اس سے ملک ایسی بے شمار آفتوں میں گھر جائے گا جن کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا،جو لوگ این آرسی کی غیر ضروری حمایت کررہے ہیں انہیں ان نکات پر غور کرنا چاہیے جنہیں شیام میرا سنگھ نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں ذکر کئے ہیں،وہ لکھتے ہیں:
۱- دیش میں ۳۰کروڑ لوگ بے زمین ہیں، یعنی ان کے پاس کوئی زمین نہیں(یہ اعداد وشمار ارون جیٹلی کی جانب سے پارلیمنٹ میں بتائے ہوئے ہیں) سوال اٹھتا ہے کہ جب ۳۰ کروڑ لوگوں کے پاس زمین نہیں ہے تو وہ کس زمین کے کاغذات این آرسی میں پیش کریں گے؟
۲- ۱۷۰ لاکھ لوگ بے گھر ہیںیعنی ان کے پاس رہنے کے لیے گھر نہیں ہیں، کوئی فٹ پاتھ پر سوتا ہے، کوئی جھگی جھونپڑی بنا کر، کوئی فلائی اوور کے نیچے، ایسا میں نہیں کہہ رہا ہوں مرکزی سرکار کی جانب سے سروے کرنے والا ادارہ NSSOکہہ رہا ہے، اب اگر ان لوگوں کے پاس مکان نہیں ہے تو وہ کیا فٹ پاتھ یا فلائی اوور کے کاغذات این آرسی میں دکھائیں گے کہ وہ کون سے فٹ پاتھ یا کس فلائی اوور کے نیچے سوتے ہیں؟
۳- اس دیش میں ۱۵ کروڑ خانہ بدوشوں کی آبادی ہے، آپ نے شاید بنجارے، گاڑیا لوہار وغیرہ کے نام سنے ہوں گے، ان کے رہنے سہنے کا مستقل ٹھکانہ نہیں ہوتا، جب ٹھکانہ ہی نہ ہو تو کون سے کاغذات؟
۴- اس دیش میں ۸کروڑ ۴۳ لاکھ لوگ آدیباسی ہیں جن کے بارے میں خود سرکار کے پاس ناکافی اعداد وشمار ہوتے ہیں۔ (مردم شماری ۲۰۱۱ء)ان کا کیا ہوگا؟
۵- آخر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ۱۹۷۰ء میں ملک کی شرح خواندگی ۳۴ فیصد تھی، یعنی ۶۶ فیصد لوگ اَن پڑھ تھے، بالفاظ دیگر اس ملک کے ۶۶ فیصد اجداد اور بزرگوں کے پاس لکھائی پڑھائی کا کوئی دستاویز ہی نہیں ہے، آج بھی تقریباً ۲۶ فیصد یعنی ۳۱ کروڑ لوگ اَن پڑھ ہیں، جب اسکول ہی نہیں گئے تو انہوں نے مارک شیٹ کس بات کی رکھی ہوگی؟’’شیام میرا سنگھ نے اس کے بعد لکھا ہے کہ اپنے گاؤں شہر کے سب سے کمزور بچھڑے لوگوں کے گھروںپر نظر ڈالیے اور سوچئے کہ ان کے پاس ان کے دادا پردادا کے کون کون سے کاغذات رکھے ہوں گے، کیا شہریت ثابت نہ کرسکنے کی صورت میں ان کے پاس اتنی دولت ہوگی کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں کوئی مقدمہ لڑ سکیں؟‘‘شیام میرا سنگھ کے مطابق این آرسی جیسا غیر ضروری فضول اور توہین آمیز قانون صرف مسلمانوں ہی کے لیے نہیں ہے، اس بات کو آپ جتنی جلد سمجھ پائیں گے اچھا ہوگا، آسام میں جو ہندو شروعات میں کہہ رہے تھے کہ آسام میں ایک کروڑ گھس پیٹھیے ہیں، جب ۱۹ لاکھ ایسے نکلے جو اپنی شہریت ثابت نہ کرپائے اس میں بھی ۱۵ لاکھ ہندو ہیں، اب وہی ہندو این آرسی کے نام سے بھی کانپتے ہیں اور ا سے رد کرنے کی آواز اٹھا رہے ہیں۔
این آرسی کے نقصانات
جہاں تک این آرسی سے مسلمانوں کو ہونے والے نقصانات کی بات ہے تو بقول ایک صحافی کے مسلمانوں کے لیے این آرسی تلوار سے زیادہ تیزاور بال سے زیادہ باریک ہے، جب ایک دوماہ کے دستاویز بڑی مشکل سے مل پاتے ہیں تو ۱۹۵۱ء تک کے کاغذات کہاں سے لائے جائیں گے، آدھار کارڈ، پین کارڈ، پاسپورٹ اور ووٹر آئی ڈی کے بارے میں وضاحت آچکی ہے کہ یہ این آرسی کے لیے ناقابل قبول ہوں گے، علاوہ ازین سرکاری کاغذات بالعموم لفظی اغلاط اور خامیوں سے محفوظ نہیں ہوتے، نام اور املاء کی غلطی تو عام ہے، اس کا حل نکالنا کوئی آسان کام نہیں ہے، مسلمانوں کے لیے سب سے بڑی آزمائش یہ ہوگی کہ غریب مسلمان جب شہریت ثابت کرنے سے قاصر ہوں گے تو (Detention Center) کی عقوبتوں سے بچنے کے لیے وہ خود کو غیر مسلم ظاہر کریں گے، اس طرح مسلم قوم میں ارتداد کا سیلاب امڈ آئے گا، شاید آر ایس ایس کا یہی منصوبہ ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کو ان کے مذہب سے دست بردار ہونے پر مجبور کیا جائے، تاریخ سے بھی اس کی شہادت ملتی ہے، مسلم اندلس کو عیسائی بنانے کے لیے یہی حربہ استعمال کیا گیا تھا، بے شمار مسلمان شہریت چھن جانے کے خوف سے عیسائی بن گئے تھے، گذشتہ چند سالوں کے دران برازیل، ارجنٹائنا اور جرمنی وغیرہ یوروپی ملکوں کو ہجرت کرنے والے سیکڑوں لبنانی، اردنی، شامی اور فلسطینی مسلمانوں نے ان ملکوں کی شہریت پانے کے لیے عیسائیت اختیار کرلیا۔ حالیہ عرصہ میں بھی عراق وشام کے ہزاروں مسلمان یوروپی ملکوں کی شہریت کی خاطر مرتد ہوچکے ہیں، بنگلہ دیش میں روہنگیا مسلمانوں کے کیمپوں کا حال زار دنیا سے مخفی نہیں ہے، جہاں دنیا بھر میں غلام اور سیکس ورکر کے طور پر روہنگیاؤں کی تجارت ہورہی ہے۔
ملک سے مسلمانوں کے صفایا کی سازش
ایک صاحب قلم نے بجا لکھا ہے کہ این آرسی ملک سے مسلمانوں کے صفایا کا حکومتی منصوبہ ہے، اس بات کوانہوں نے اعداد وشمار سے ثابت کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے شہروں اور دیہاتوں میں ۱۵ فیصد سے زائد لوگوں کے پاس اپنی زمین نہیں ہے، وہ برسوں سے یا تو PWDکی زمین پر رہ رہے ہیں، یاپھر WASTELANDSپر کچھ وہ ہیں جو راجاؤں اور جاگیر داروں کی زمین پر بھی رہتے ہیں، ان کے پاس ان زمینوں کا کوئی کاغذ نہیں، کچھ فٹ پاتھ اور جھگیوں پر، ہندوستان کی کل آبادی تقریبا ۱۳۵ کروڑ ہے اور ان میں بغیر کاغذ کی زمین پر رہنے والے ۱۵ فیصد ہیں، جن کا کل عدد ۲۰ کروڑ ۲۵ لاکھ ہوگا، اب اگر ان میں سے آدھے لوگوں کو مسلمان مانا جائے تو ان غیر کاغذی زمینوں پر رہنے والے مسلمان کل آبادی کا 7.5% حصہ ہوں گے، اس حساب سے ۱۳۵ کروڑ کا 7.5% دس کروڑ ساڑھے بارہ لاکھ ہوگا، ہندوستان میں مسلمانوں کی کل آبادی 41.2% یعنی تقریبا ۲۰ کروڑ اور ان ۲۰ کروڑ میں سے دس کروڑ بارہ لاکھ تو وہ نکل گئے جن کے پاس زمین کے کاغذات ہی نہیں ہیں، چہ جائے کہ وہ ۱۹۷۱ء سے پہلے کے کاغذات دکھائیں، اگر این آرسی زمینی کاغذات کی بنیاد پر ہو جیسا کہ آسام میں ہوا، تو 10.125کروڑایسے مسلمان ملک بدر کردئے جائیں گے جو صدیوں سے یہاں رہ رہے ہیں، یاد رہے کہ یہ ایک ا ندازہ ہے، ممکن ہے کہ غیر کاغذاتی زمینوں پر رہنے والے مسلمانوں کی تعداد ۶۰ یا ۷۰ فیصد کو پہونچ جائے، پھر سوچئے کہ کتنے لوگ نکالے جائیں گے، اخیر میں صاحب مضمون نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ آر ایس ایس کا بہت پرانا ایجنڈہ تھا کہ مسلمان مکت بھارت ہو، اور آج بی جے پی اسی ایجنڈے پر سی اے اے اور این آرسی کی شکل میں عمل کررہی ہے۔
awameez@gmail.com