این پی آر ‘ ایک نیا جال

   

مرکزی حکومت ایسا لگتا ہے کہ شفافیت کے ساتھ کام کرنے اور عوام کے جذبات کا احساس کرنے کی بجائے عوام کو کسی نہ کسی بہانے اپنے جال میں پھانسنے کی کوششوں میں زیادہ یقین کرنے لگی ہے ۔ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف عوام میں پائی جانی والی ناراضگی وبرہمی کو دیکھتے ہوئے اب حکومت نے این پی آر کے نام سے ایک نیا جال پھینکنے کی کوشش کی ہے ۔ حالانکہ قومی رجسٹر آبادی اور مردم شماری کا کام ہر دس سال میں ایک مرتبہ ہوتا ہے لیکن اس بار اس کو ایک دوسرے سے مربوط کرتے ہوئے حکومت نے اندیشوں کو تقویت دی ہے ۔ کئی باشعور گوشوں کی یہ متفقہ رائے ہے کہ حکومت این پی آر کو ہی این آر سی کے ڈاٹا بیس کے طور پر استعمال کریگی ۔ حکومت کے منصوبے بھی شائد یہی ہیں کیونکہ اس نے جہاں این پی آر کا اعلان کیا تھا ساتھ ہی یہ اعلان بھی کرنا ضروری سمجھا کہ اس کا این آر سی سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن حکومت کے اعلانات اور تیقنات و وعدوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کے وعدے کبھی وفا نہیںہوتے ۔ اس کے اعلانات محض عوام کو گمراہ کرنے کیلئے ہوتے ہیں یاپھر یہ صرف جملہ بازیاں ہوتی ہیں۔ این پی آر کے نام پر حکومت ایک بار پھر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ پہلے ہی این آر سی پر حکومت کے مختلف گوشوں سے مختلف بیانات جاری کئے جا رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ خود وزیر اعظم اس تعلق سے غلط بیانی کر رہے ہیں۔ وزیر داخلہ بھی مسلسل دروغ گوئی سے کام لے رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں این آر سی کے تعلق سے اعلان ہوا ہے ۔ کئی ٹی وی چینلوں پر انٹرویو کے دوران انہوں نے این آر سی نافذ کرنے کی بات کہی ہے ۔ خاص طورپر مغربی بنگال کو نشانہ بناتے ہوئے ایک سے زائد مرتبہ کہا کہ بنگال کے علاوہ سارے ملک میں این آر سی پر عمل کیا جائیگا ۔ اس کے باوجود وزیر اعظم دہلی کے رام لیلا میدان میں تقریر کرتے ہوئے این آر سی پر کوئی بات کئے جانے سے ہی انکار کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کے اقتدار والی ریاست اترپردیش میں این آر سی پر عمل آوری کا آغاز بھی کردیا گیا ہے ۔ اس کی ذمہ داری پولیس کو سونپی گئی ہے ۔

سی اے اے کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف تعصب کا مظاہرہ کرنے کے بعد حکومت این آر سی لاگو کرتے ہوئے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کررہی ہے اور اس پر ملک کے ہندو ‘ مسلم ‘ سکھ‘ عیسائی اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے عوام کی شدید ترین مخالفت کو دیکھتے ہوئے اب این آر سی کی بجائے این پی آر کا سہارا لینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ این پی آر میں کوئی دستاویزات طلب نہیں کئے جائیں گے بلکہ عوام کو اپنے طور پر ہی خانہ پری کرنی ہوگی ۔ اس خانہ پری کی تائید میں کوئی دستاویزات طلب نہیں کئے جائیں گے ۔ این پی آر کی بنیاد پر حکومت ایک جامع ڈاٹا تیار کرتے ہوئے اس کو این آر سی کیلئے استعمال کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے ۔ اسی ڈاٹا کی بنیاد پر این آر سی لاگو کرتے ہوئے عوام سے این پی آر میں درج کی گئی تفصیلات کا دستاویزی ثبوت طلب کریگی ۔ سیاسی جماعتیں ہوں یا پھر دانشور طبقہ ہو سبھی کو یہ اندیشے برابر ہیں کہ حکومت این پی آر کو این آر سی کے ڈاٹا بیس کے طور پر استعمال کریگی ۔ حکومت نے جو تردید کی ہے اس کو کوئی قبول کرنے تیار نہیں ہے اور یہ تجربات کی بنیاد پر ہے ۔ حکومت دوسرے سلگتے ہوئے مسائل کو مسلسل نظر انداز کرکے ان مسائل میں عوام کو الجھا رہی ہے اور اس کا مقصد اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کرنا اور بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال سے عوام کی توجہ کو ہٹانا بھی ہے ۔

ملک کی اپوزیشن جماعتیں ہوں یا پھر بی جے پی کی حلیف جماعتیں ہوں سبھی کو حکومت کی غلط بیانی اور موقف بدلنے کی عادت کا خاصا تجربہ ہوچکا ہے ۔ اب ان جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت کے جال میں نہ پھنسیں۔ خاص طور پر جن چیف منسٹروں نے این آر سی اپنی اپنی ریاست میں لاگو نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ان چیف منسٹروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی ریاستوں میں این پی آر پر بھی عمل آوری نہ کریں۔ این پی آر کیلئے ریاستی عملہ کی ضرورت ہوتی ہے اور ریاستی عملہ ہی یہ کام کرتا ہے ۔ ایسے میں ریاستی حکومتوں کیلئے یہ زیادہ آسان ہوگا کہ ابتدائی مرحلہ میں این پی آر کی تکمیل کیلئے ہی تعاون نہ کریں۔ ایسا کرتے ہوئے این آر سی کے نفاذ سے حکومت کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ این آر سی پر عوام کو تیقن دینے والے چیف منسٹروں کا این پی آر کے معاملہ میں ہی اصل امتحان رہے گا ۔