ایودھیا۔ ماضی سے کچھ سبق سیکھیں۔ایک رائے

,

   

یہاں پر جب ایودھیا فیصلہ دیاجائے گا اس وقت ہمیں امتحاد اور امیدکے لئے سابق کے اتحاد کا سبق یا د رکھنا چاہئے
نئی دہلی۔ایودھیا فیصلے کا وقت بڑی حد تک ختم ہوگیا ہے۔

جب پرانے تنازعات ختم ہونے کے دہانے پر ہیں تو ناخوشگوار واقعات کا اندیشہ رہتا ہے۔ایودھیا کا مسئلہ کئی زخموں کو تازہ کردے گااور اس طرح کے خدشات قابل فہم ہیں۔

اب اس صورتحال میں کیاہندوستانی نفسی اس قدر پختہ ہوگئی ہے کہ وہ ملک کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو پرامن طریقے سے قبول کرسکے گی؟یہاں پر اس کے لئے مثالیں اور ہمیں اس کے لئے امید کا دامن نہیں چھوڑ نا چاہئے۔۔

پہلی مثال 1984سے ہے۔ مذکورہ مخالف سکھ فساد اور لوگوں ان کے عقائد پر کئے گئے حملوں سے بحال ہوگئے ہیں۔

الہ آباد (جو اب پریاگ راج ہے) میں کرفیوہٹالیاگیا ہے مگر خوف اوردہشت ہٹائیں نہیں جاسکی۔ ان دنوں کی ایک دوپہر نے دہنوں پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔لیڈر روڈ سے میں اپنے دفتر کی طرف جارہا تھا۔ جب میں نے دیکھا کہ سڑک کے ایک کنارے فوج کی تین گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔

اس کے قریب میں درجنوں سکھ افیسر اور اٹومیٹک ہتھیاروں کے ساتھ یونیفارم زیب تن کئے جوان کھڑے ہوئے ہیں۔ وہ سڑک کے کنارے جلائی گئی دوکانوں کو گھور رہے تھے۔

میں ان کے قریب سے تاثرات کا پڑھنے کی کوشش میں گذرا۔ ان کی آنکھیں دھویں کی وجہہ سے جل رہی تھیں۔ اگر وہ کھل فائیرنگ کرتے ہوئے کیاہوتا‘ میں نے تعجب کیا۔مذکورہ سڑک لوگوں سے بھری ہوئی تھی‘ کیاہوا ہوگا؟ کچھ نہیں ہوا۔

اس کی وجہہ؟فوج میں دی گئی تربیت ہر حال میں خود پر قابو رکھنے کے لئے۔انہیں اپنے جذبات پر ردعمل پیش کرنے سے روکتا ہے۔وہ محض اپنے جذبات سے باز نہیں الیں گے۔

کچھ دیر بعد وہ اپنے کیمپ واپس ہوگئے‘ کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوا۔آنے والے ماہ قابل تعجب رہے۔ فساد متاثرین واپس ہونے لگے اور اپنی دوکانوں کو سجانے میں مصروف ہوگئے۔

انہوں نے اس سانحہ سے استحکام حاصل کیا‘ وہیں سڑک کے دوسرے کنارے کوئی زندگی نہیں ہے۔ان میں سے کچھ لوگ جو حملہ آوروں میں شامل تھے‘ اب شرمندہ ہیں جب انہوں نے نیوز پیپرس میں ان خطوط کا مطالعہ کیا”وہ لوگ پاکستان سے اپنے ملک وہاں لوٹ مار کے بعد واپس لوٹے‘ انہیں اپنے ہی لوگوں نے دوبارہ لوٹ لیا“۔

یہ سانحہ نہ صرف الہ آباد میں پیش آیابلکہ شمالی ہند کی مختلف شہروں میں بھی یہ بات پیش ائی ہے۔ قومی راجدھانی دہلی بری طرح متاثرہوئی۔ ملک بھر میں 3000لوگ مارے گئے۔

اس میں سے صرف دہلی میں 2800لوگوں کی ہلاکت پیش ائی۔ اس کے علاوہ اب بھی کئی متاثرین انصاف کے دروازے کھٹکھٹارہے ہیں۔ اسکے باوجود وہ ملک کی خدمت کا جذبہ سے گمراہ نہیں ہوئے ہیں۔

اس سانحہ کے بعد ہم نے 1992میں بابری مسجد کی شہادت دیکھی۔ اسکے بعد بھی فسادات ہوئے‘ اس میں بھی 2000کے قریب لوگ مارے گئے اور ہزاروں کروڑ کی جائیدادوں کو نقصان پہنچایاگیا۔

فرقہ وارانہ کشیدگی نے ملک کو آگ میں جھونک دیاتھا۔ میں اس وقت اگرہ میں رہ رہا تھا۔ایک مرتبہ ایک مجموعی میں ایک بڑی صنعت کار کو میں نے یہ کہتے ہوئے سنا کہ مذکورہ کاروباری کمیونٹی نے یہ فیصلہ کیاہے کہ ”ان کے ساتھ“ کوئی معاملے داری نہیں کی جائے گی اور ”انہیں“ کوئی نوکری نہیں دی جائے گی۔

میں چونک گیا اور اسکے متعلق سونچنے لگا کہ وقت کے ساتھ کیسے شہر بد ل گئے ہیں‘ مگر تشدد کے تئیں مذکورہ ”دیگر“ کے لئے ذہنیت اب بھی تیز ہے۔مجھے اس بات کاخدشہ تھا کہ اس قسم کے جذبات پر گھر میں جڑ پکڑیں گے اور اگر ایسا ہوتا اس سے فرق کیاپڑے گا۔

شکر ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ گرنے‘ سنبھلنے‘ دوبارہ گرنے او راٹھ کھڑے ہونے کی غیرمعمولی صلاحیتیں ہم ہندوستانیوں میں ہیں۔

او رپھر ایک مرتبہ ہم نے ایک ساتھ چلنا شروع کردیا۔ سال1984کے زخموں کو 1985نے مندمل کردیا۔ اس مرتبہ ذمہ داریوں کی بھرپائی 1993کے ابتدائی مہینوں میں ہوئی مگر اب بھی یہ سوال برقرار ہے کہ ایودھیا عقائد کے بجائے تنازعات کی نشانی کیو ں بن گیاہے“۔