ایودھیا اختتام وجوہات کے مماثل نہیں ہے۔ جسٹس گنگولی

,

   

سابق جج نے کہاکہ ججوں کو تنقید نہیں کرنا ہے مگر حیرت سے دوچار او رمفاہمت سے قاصر ہیں۔
نئی دہلی۔ جسٹس اے کے گنگولی سابق سپریم کورٹ جج نے پیر کے روز کہاکہ وہ ایودھیا فیصلہ ”سمجھنے سے قاصر‘‘ اور حیرت زدہ ہے کیونکہ ”مذکورہ فیصلے کا اختتام وجوہات سے مماثل نہیں ہے“۔

انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں ”ایودھیا پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتائج“ کے عنوان پر منعقدہ مباحثہ سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس گنگولی نے کہاکہ ”میں اپنے اٹھارہ سال کے جج کیریر میں کبھی نہیں سنا ہے کہ کوئی فیصلہ قیاس کی بنیاد پر ہوتا ہے‘

فیصلے کا مطالعہ کرنے کے بعد میرا پہلا ردعمل ایک جملہ میں یہی تھا کہ”فیصلہ کا اختتام اس کی وجوہات سے نہیں ملتا ہے‘ بلکہ اس کو باہمی طو رپر تباہ کردیاگیاہے“۔

سابق جج نے کہاکہ ججوں کو تنقید نہیں کرنا ہے مگر حیرت سے دوچار او رمفاہمت سے قاصر ہیں۔جسٹس گنگولی نے کہاکہ ”سال1934میں وہاں پر فرقہ وارانہ کشیدگی تھی۔ مسجد کو نقصان پہنچایاگیا۔

اس کو برطانوی حکومت نے دوبارہ تعمیر کردیا اور ہندوؤں پر جرمانہ عائد کیاگیا۔

مجھے لگتا ہے کہ ہمارے جاگیردار بادشاہوں نے اقلیتوں کے بہتر حقوق کی حفاظت کی ہے جبکہ ائینی طور پر تشکیل شدہ حکومت جو دستور کے تحت ہے جس کا بنیاد مستقبل سکیولرزم ہے‘اس کام میں ناکام ہوگئی ہے“۔

انہوں نے اشارہ دیا ہے کہ ”ہندو مورتیاں خفیہ طور پر مسجد میں رکھی گئیں“ وہ بھی ائین کے نفاذ سے ایک ماہ قبل۔جسٹس گنگولی نے فیصلہ کاحوالہ دیا جس میں کہاگیا ہے کہ ”اراضی کی اجرائی مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کیونکہ امکانات کے توازن کو برقرار کھنا ہے‘

مذکورہ شواہد جس میں مالکانہ حق کے متعلق ہندوؤں کے دعوؤں کے مقابلہ مسلمانوں کے پوری متنازعہ اراضی پر دعوی مضبوط ہے‘ مذکورہ مسلمانوں کو 22/23ڈسمبر1992میں کے پیش نظر بیدخل کردیاگیا ہے‘

جس کوبالآخر6ڈسمبر1992کے روز منہدم کردیاگیاہے‘ مسلمانوں نے کبھی بھی مسجد کو ترک نہیں کیاتھا“۔ جسٹس گنگولی نے پھر استفسار کیاکہ”پھر یہ کس طرح اچھی پہل ہوسکتی ہے‘ اور کیسے اچھا ہوسکتا ہے؟

ہندو ہمیشہ غیر قانونی قابضین رہے ہیں۔کیامسجد کا انہدام ہندوؤں کے مالکان حق کے لئے بہتر ثابت ہوا؟“۔

سال2017میں مذکور ہ سپریم کورٹ کی جانب سے قائم کردہ فاسٹ ٹریک عدالت کی سنوائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جس میں سابق چیف منسٹر اترپردیش کلیان سنگھ اور بی جے پی کے دیگر قائدین کو مسجد کی انہدامی کاروائی کے لئے مجرمانہ سازش کا ذمہ دار ٹہرایاگیاتھا‘ گنگولی نے کہاکہ ”عدالت نے اس جرم کو غیرمعمولی حد تک دیکھا۔

جس کو قبضہ کا عمل تسلیم کیاگیاہے؟اور مرکزی حکومت کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ایک اسکیم تشکیل دی جو اسی پلاٹ کی اراضی کے متعلق ہے جہاں پر مسجد قائم ہے‘ جس کے انہدام پر عدالت نے ایک سونائی کی ہدایت دی تھی جس سے معاملے کی سنجیدگی ظاہر ہوتی ہے“۔

انہوں نے مزیدکہاکہ ”میں ججوں پر تنقید نہیں کررہاہوں۔ وہ سیکھے ہوئے لوگ ہیں۔ سپریم کورٹ نے جو کہا ہے اس کی بنیاد پر میں سوالات تلاش کرنے کی صرف کوشش کررہاہوں۔ میں سیکھے ہوئے ججوں کی بڑے احترام کے ساتھ اصلاح نہیں کرسکتا“۔

مباحثہ کے دیگر پینلسٹ میں شامل پروفیسر نیرا چندہوکی نے”این آرسی کو سارے ملک میں لاگو کرنے کا خوف نہیں ہوتا تو ہر کوئی خاموش ہی رہتا تھا“۔ تیسرے پینلسٹ سپریم کورٹ کے وکیل سنجے ہیگڈے تھے۔