ایودھیا فیصلے پر مختلف قائدین کابیان‘ وزیراعظم نریندر مودی اوروزیرداخلہ امیت شاہ نے بھی فیصلہ کیاخیرمقدم

,

   

حیدرآباد۔کئی سالوں سے عدالت میں زیر التوا بابری مسجد‘ رام جنم بھومی کے حق ملکیت معاملے میں سپریم کورٹ نے ہفتہ 9نومبر 2019کی صبح10:30اپنا فیصلہ سنادیاہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہاکہ ایودھیاکی متنازعہ جگہ جہاں پر6ڈسمبر1992سے قبل بابری مسجد تھی اسکو مندر کی تعمیر کے لئے حکومت کے حوالے کردیاجائے‘

اور حکومت کو ہدایت دی کہ وہاں پر حکومت کی نگرانی میں ایک عالیشان رام مندر کی تعمیر عمل میں لائے اور اس کے لئے ایک ٹرسٹ بھی قائم کرے جومندر کی تعمیر اور دیکھ بھال کی نگرانی کرے گا۔

سپریم کورٹ نے ساتھ میں اس بات کی بھی ہدایت دی کہ مرکز یا پھر ریاستی حکومت ایودھیا میں کسی ایک مقام کا تعین کرتے ہوئے پانچ ایکڑ اراضی مسجد کی تعمیر کے مختص کرے اور حکومت کی نگرانی میں مسجد کی تعمیر کی جائے۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو تمام فریقین نے تسلیم بھی کرلیا ہے مگر ساتھ میں فیصلے یکطرفہ ہونے کی بات بھی کہی ہے۔

وزیراعظم نریندرمودی نے اپنے بیان میں کہاکہ ”معزز عدالت عظمی نے نے ایودھیا معاملہ پر فیصلہ سنادیاہے۔ اس فیصلے کو کسی ہار یاکسی کی جیت کے طور پر نہ دیکھیں۔

رام بھگت یا رحیم بھگت ہو‘ ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ قوم پرستی کو ہم تقویت پہنچائیں‘امن اورہم آہنگی برقرار رہے“۔


مرکزی وزیر داخلہ امیت شانے فیصلے پر اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے کہاکہ ”میں شری رام جنم بھومی پر سپریم کورٹ کے مذکورہ متفقہ فیصلے کا خیر مقدم کرتاہوں۔

میں تمام مذہب کے لوگوں سے اپیل کرتاہو ں کہ عدالت کے فیصلے کو تسلیم کریں متحدہ ہندوستان اورترقی یافتہ ہندوستان اپنے تعاون کریں۔

اس فیصلے سے اتحاد او رقومی یکجہتی اور ہندوستان کی عظیم تہذیب میں مضبوطی ائے گی۔

صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین بیرسٹر اسد الدین اویسی نے کہاکہ ”فیصلے سے مطمئن نہیں ہوں‘ سپریم کورٹ سپریم ضرور ہے مگر بے عیب نہیں ہے۔

ہم ائین پر پورا یقین ہے‘ ہم اپنے حق کے لئے جدوجہد کررہے ہیں‘ بطور عطیہ ہمیں پانچ ایکڑ اراضی نہیں چاہئے۔ ہمیں یہ پانچ ایکڑ اراضی کی پیشکش کو ٹھکرادینا چاہئے‘ ہمیں خیرات دینے کی کوشش نہ کریں“۔

ظفر یا ب جیلانی اے ائی ایم پی ایل بی سکریٹری اور سنی وقف بورڈ کے وکیل نے کہاکہ ”ہم فیصلے کا احترام کرتے ہیں مگر اس سے ہم مطمئن نہیں ہیں۔ جائزہ درخواست پیش کرنے کے متعلق ہم سونچ رہے ہیں۔

ہماری قانونی ٹیم سے مشاورات کے بعد ہم کوئی قطعی فیصلہ کریں گے۔ چیف جسٹس آف انڈیا کی فکر قومی فلاح میں دورس رہی ہے“۔

پی ایس نرسمہا وکیل رام للا وراجمان نے کہاکہ ”ہندوؤں کے عقائدکی تصدیق کی گئی ہے۔ہم عدالت کے ادارے کے شکر گذار ہیں کیونکہ تاریخی عقائد کے احیاء کے لئے اس نے غیرمعمولی اقدام اٹھایا ہے۔

ہم شکر گذار ہیں اس عدالت نے جس نے ہماری مذہب کا بڑا احترام کیاہے“