ایچ ای سی کا عملہ جس نے ادتیہ ایل 1کا کلیدی سامان تیار کیا ایک سال سے معاوضہ کے بغیرہے

,

   

درایں اثناء قرض اس قدر بڑھ گیاہے کہ ملازمین کو تنخواہیں ادا نہیں کی جارہی ہیں۔


رانچی۔ رانچی نژاد ہیوی انجینئرنگ کارپوریشن (ایچ ای سی) دو ماہ سے بھی کم عرصہ میں پھر ایک مرتبہ سرخیوں میں ہے۔ مگر اس اس مرتبہ کوئی اچھی وجہہ سے سرخیوں میں نہیں ہے۔

کیونکہ اس کے عملے نے ہندوستان کے ’مشن چاند“ کو بنانے میں کلیدی رول ادا کیاہے اور کے واقعات کا کامیابی کے ساتھ مطالعہ کرنے والے ادتیہ ایل 1تیار کیا ہے‘ اسی ایک سال سے زائد عرصہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔

رانچی میں ایچ ای سی کے 3200کی کام کرنے والی قوت کو تقریباً 18ماہ سے تنخواہیں نہیں ملنے کے باوجود ادتیہ ایل 1کی کامیاب شروعات کے ساتھ تمام سینے فخر سے چوڑے ہوگئے ہیں۔

ایک اہلکار نے بتایاکہ افلقی سلائڈنگ ڈور‘فولڈنگ کم عمودی ری پوزیشن ایبل پلیٹ فارم‘موبائل لانچنگ پیڈسمیت دیگر اہم حصوں کو ایچ ای سی میں تیار کیاگیاہے۔

جناب آلات تیار ہورہے تھے اس وقت ائی ایس آر او کی ایک ٹیم نے بھی ایچ ای سی کا دورہ کیاتھا۔ ایچ ای سی کے ایک انجینئر گوراؤ سنگھ نے کہاکہ ”ایچ ای سی کے تمام ملازمین کو تمام مشنوں پر فخر ہے“۔ سنگھ نے کہاکہ ”ہم سولار مشن میں بھی پارٹنر ہیں۔

یہ ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ یہ ادارہ جو ملک کی اختراع میں ایک شراکت دار ہے‘ اس معاشی بحران سے اسے نکالنا چاہئے“۔ رانچی کے دھورا علاقے میں وزراعت بھاری صنعت کے تحت ایچ ای سی ایک پبلک سیکٹر ہے۔

معلوم یہ ہوا ہے کہ ایچ ای سی پچھلے دو تین سالو ں سے مالی بحران کا شکار ہے۔ ذرائع کے مطابق ایچ ای سی نے بھاری صنعت کی وزرات سے کئی بار درخواست کی ہے کہ وہ ایک ہزار کروڑ روپئے کا ورکنگ کیپٹل فراہم کرے۔

وزرات نے تاہم یہ کہا ہے کہ مرکز نے کوئی مدد نہیں کی ہے۔درایں اثناء قرض اس قدر بڑھ گیاہے کہ ملازمین کو تنخواہیں ادا نہیں کی جارہی ہیں۔دراحقیقت پچھلے دو ڈھائی سالوں میں یہاں پر ایچ ای سی میں کوئی بھی مستقل سی ایم ڈی کا تقرر نہیں ہوا ہے۔

ہاتیا پراجکٹ ورکرس یونین کے جنرل سکریٹری رانا سنگرام سنگھ جو ایچ ای سی کی سب سے بڑی یونین ہے نے ایچ ای سی کی موجود حالات کو بد انتظامی سے منسو ب کیاہے۔

قابل غور ہے کہ مذکورہ ادارے نے موبائل لانچنگ پیڈ‘ دیگر اہم پیچیدہ آلات کے علاوہ‘ چندریان 3کے لئے ڈسمبر2022میں مقرر وقت سے پہلے پہنچادیاتھا‘ اس عملے کے انجینئرس‘ اعلی حکام اور ورکرس بھی بغیر تنخواہ کے ہیں۔