ایک حکومت جو گاندھی کی بھگت ہے۔مرکز کا کہنا ہے کہ سی اے اے باپو کی خواہش کے احترام میں ہے۔

,

   

صدر جمہوریہ رام ناتھ کوئند نے جمعہ کے روز پارلیمنٹ میں حکومت کی تیار کردہ تقریر پڑھتے ہوئے کہاکہ شہریت ترمیمی قانون جس میں مسلمانوں کو باہر کردیاگیا ہے‘ بابائے قوم مہاتما گاندھی کی خواہش کے احترام میں نافد کیاجارہا ہے۔

نئی دہلی۔صدر کوئند نے پڑھا کہ”تقسیم کے بعد کے پرآشو ب ماحول میں‘ بابائے قوم مہاتماگاندھی نے کہاتھا کہ ”پاکستان کے ہندوؤں اورسکھوں‘ جو وہاں پر رہنا نہیں چاہتے ہیں‘ وہ ہندوستان آسکتے ہیں۔

حکومت ہند کی یہ ذمہ داری ہے وہ انہیں یہاں پر ایک آرام کی زندگی گذارنے کاموقع فراہم کریں“ایوان میں برسراقتدار اراکین پارلیمنٹ تالیاں بجارہے تھے جبکہ اپوزیشن مخالفت میں احتجاج کررہی تھی۔

بجٹ اجلاس کے پیش نظر صدر پارلیمنٹ کے مشترکہ ایوان سے خطاب کررہے تھے۔ نریند ر مودی حکومت نے صدر جمہوریہ کی تقریر میں گاندھی کے لفظ پر زوردیاہے

مہاتماگاندھی کے جملے کاموں میں سے صدر کی تقریر میں جن کا ذکر نہیں کیاگیا ہے وہ کچھ اس طرح ہیں
مہاتما گاندھی نے 10جولائی1947کے دعائیہ اجتماعی میں ”مگر سند اوردیگر مقامات پر اپنے گھروں میں رہنے والے لو گ ہندوستان آتے ہیں تو ہمیں انہیں باہر کردینا چاہئے؟اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم اپنے کو کیسے ہندوستانی کہیں گے؟کس منھ کے ساتپ ہم ’جئے ہند‘ کا نعرے لگائیں گے؟

کس چیز کے لئے نیتاجی نے لڑا تھا؟ ہم سب ہندوستانی ہیں‘ چاہیں دہلی میں رہیں یا گجرات میں۔ وہ ہمارے مہمان ہیں۔ ہم یہ کہتے ہوئے ان کااستقبال کریں کہ جس پاکستان آپ کا ہے اتنا ہی ہندوستان بھی آپ کا ہی ہے۔ اگر کوئی قوم پرست مسلمان بھی پاکستان جانا چاہتا ہے تو ہمیں وہاں پر اس کا استقبال کرنا چاہئے۔ بطور ہندوستان ہم سب کو موقف یکساں ہے“

مہاتما گاندھی نے 25جولائی 1947کے دعائیہ اجتماع میں ”وہاں پر مسلمان‘ پارسی‘ عیسائی اور دیگر مذاہب کے گروپس ہیں۔ ہندوؤں کو یہ گمان ہورہا ہے کہ ہندوستان اب ہندؤوں کی زمین بن گیاہے یہ غلط ہے۔ ہندوستان یہاں پر رہنے والے تمام لوگوں کا ہے“

(گاندھی جی یہ دو اقتباسات ایسے وقت میں گونج رہے ہیں جب ہندوستان بھر میں مسلمانوں کومحاصرہ کا احساس ہورہا ہے)

مہاتماگاندھی نے 9ستمبر1947کو کمیونسٹ لیڈر پی سی جوشی سے کہا”یہ ہمارے لئے شرم کی بات ہے کہ یونین میں مسلمانوں افسردگی کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے“۔

مہاتما گاندھی نے 25اگست1947کہ دعائیہ اجتماع میں ”مذکورہ اقلیتوں کو اس بات کایقین دلایاجانا چاہئے کہ وہ ملک میں اس قدر اہمیت کے حامل جتنے اکثریت طبقے کے لوگ ہیں“۔

کوئند نے اپنی تقریر میں ذکر کیاکہ ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کو ڈرنے یاگھبرانے کی ضرورت نہیں ہے اور یہ قانون پاکستان میں اقلیتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے شکار لوگوں کے لئے ہے۔

پچھلے سال طرح اس سال صد ر کی تقریر میں کہیں پر بھی قومی رجسٹرر برائے شہریت (این آرسی) کا کہیں پر بھی ذکر نہیں تھا۔

مذکورہ ترنمول کانگریس نے خود کو احتجاج سے الگ رہا اور کانگریس اوربائیں بازو نے بہت دیر سے احتجاج کیا‘ خاموشی کے ساتھ ہاتھوں میں تھامے کپڑے پر ”نو سی اے اے‘ این ارسی اور این پی آر“ کے نعرے تحریر تھے۔

اپوزیشن سے کافی دور ترنمول کے ممبرس بیٹھے ہوئے تھے۔ صدر کی تقریر کے دوران پلے کارڈس دیکھانے کے بعد وہ خاموشی کے ساتھ بیٹھے رہے