ایک ماہ بعد بھی احتجاج کا جذبہ عروج پر

,

   

مذکورہ انڈیا گیٹ کے تنصیبات کے پاس ان لوگوں کے نام درج کئے گئے ہیں جن کی موت سی اے اے احتجاج کے دوران ہوئی ہے

نئی دہلی۔ پچھلے ایک ماہ سے مختلف خواتین شاہین باغ میں احتجاجی اور گھر کی ذمہ داریوں کی تکمیل پر مشتمل دوہری زندگی جی رہے ہیں۔

صبح نیند سے بیدار ہونا‘ گھریلو کام کاج مکمل کرنا اور احتجاج کے مقام پر نصب خیمہ میں پہنچاناان کے روز کے کاموں کا حصہ بن گیا ہے۔

شاہین باغ کی ساکن تین بچوں کی ماں 30سالہ شہناز نے کہاکہ ”ہم میں سے زیادہ تر صبح4بجے جاگتے ہیں

۔ صبح سویرے ہم اپنے بچوں کی نہانے میں مدد کرتے ہیں کیونکہ ہمیں دوپہر او رشام کو یہاں پر وقت آنا ہوتا ہے۔شام کوہم گھر واپس جاتے ہیں اور پھر کچھ اگلے دن کے لئے تیار کرلیتے ہیں“۔

ان کی طرح دیگر سینکڑوں‘ جس میں زیادہ تر پہلی مرتبہ احتجاج مظاہروں میں شامل ہوئے ہیں یہاں پر ایک ہفتے سے رہ رہے ہیں۔

چاہئے سردی کی سخت راتیں ہوں یا پھر برسات کا پانی شہریت ترمیمی ایکٹ یا سی اے اے کے خلاف احتجاج جاری ہیں۔ ایک احتجاجی رضوانہ بانو نے کہاکہ ”احتجاج اور گھریلو کام کاج کے دوران بڑی مشکل سے ہمیں نیند ملتی ہے“۔

انہوں نے مزیدکہاکہ مصروفیت کے باوجود ہمارے حوصلے کم نہیں ہوئے ہیں۔انہوں نے استفسار کیاکہ ”نیند کی کمی کی وجہہ سے میری آنکھیں جل رہی ہیں۔ مذکورہ حکومت سونچ رہی ہے کہ ہم کمزور ہوگئے ہیں۔

اگر ہم کمزور ہوتے تو کیاان معاملات سے گذر پاتے“۔ ان کے ساتھ بیٹھے دیگر نے اس بات پراپنی رضا مندی ظاہر کی۔ بارہویں جماعت کی ندا پرویز‘ شادیوں کی تقریب کا انتظام کرنے والے 25سالہ محمد آصف بھی رضاکارانہ طور پر اس احتجاجی مظاہرے میں شامل ہیں۔

ہزاروں کی تعداد میں لوگ رات میں یہاں پر پہنچ رہے ہیں پانی اورکھانے کی ضرورت فوج کی طرح وہاں پر کھڑے والینٹرس پوری کررہے ہیں۔ ہر دوگھنٹوں کے بعد مائیک میں ا س بات کااعلان کیاجاتا ہے کہ نقدی میں چندہ منع ہے۔

بریانی‘ پھل‘ بسکٹ‘ چاکلیٹ باکسوں کی تقسیم مظاہرین کے درمیان میں کی جارہی ہے