ایک ملک ۔ ایک الیکشن کی مہم

   

وہ موسم کیا نہ گزرے جو خزاں سے
بہار ایسی کوئی آئی نہیں ہے
سرکاری تجویز کے مطابق ایک ملک ۔ ایک الیکشن کیلئے مہم شروع ہوگئی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی قیادت میں ایک اعلی سطح کی کمیٹی اس مسئلہ پر مصروف ہوگئی ہے ۔ سرکاری حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ کمیٹی رائے مجتمع کرنے اور اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ اپوزیشن کا دعوی ہے کہ یہ کمیٹی حکومت کی جانب سے پہلے سے طئے شدہ ایجنڈہ کے مطابق کام کر رہی ہے اور ایک طرح سے فیصلہ کرلیا گیا ہے اور اسی کو مختلف جماعتوں اور ریاستوں تک پہونچانے کا کام کیا جا رہا ہے ۔ اس سلسلہ میں چیف منسٹر مغربی بنگال ممتابنرجی کا دعوی ہے کہ اسی وجہ سے حکومت نے جو کمیٹی تشکیل دی ہے اس میں کسی بھی ریاست کے چیف منسٹر کو شامل نہیں کیا گیا ہے کیونکہ حکومت کو یہ احساس یا شبہ رہا ہے کہ کوئی بھی چیف منسٹر اگر اس کمیٹی میں شامل رہا تو وہ جامع اور موثر تجاویز پیش کرسکتا ہے ۔ ممتابنرجی کا الزام ہے کہ حکومت کسی بھی طرح کی تجاویز کو قبول کرنے تیار نہیں ہے اور اس نے جو کچھ بھی کرنا ہے اس کا پہلے ہی سے من بنالیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ محض ضابطہ کی تکمیل کیلئے یہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور کسی کو بھی اس میں رائے ظاہر کرنے کا موقع نہیں دینا چاہتی ۔ جہاں تک ایک قوم ۔ ایک الیکشن کی تجویز کا سوال ہے تو یہ ہندوستان جیسے وسیع و عریض ملک کے پس منظر میں انتہائی اہمیت کا حامل مسئلہ ہے ۔ اس پر جب تک کامل اتفاق رائے نہ ہونے پائے اس وقت تک کسی فیصلے پر نہیں پہونچنا چاہئے ۔ ہندوستان میں صرف حکومت ہی نہیں ہے جو جمہوریت کی حصہ دار ہے ۔ جمہوریت کا عمل ملک میں کسی کو اقتدار سونپتا ہے تو کسی کوا پوزیشن کی ذمہ داری حوالے کرتا ہے ۔ ہر ایک کا رول جمہوریت کا عمل ہی طئے کرتا ہے اور اس کی اپنی اہمیت اور مسلمہ حیثیت سے انکار کی کسی کو گنجائش نہیں مل سکتی ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کو اس مسئلہ پر پہلے سے طئے شدہ ایجنڈہ پر کام کرنے کی بجائے اس کی اپنی جو تجاویز ہیں اور جو کچھ بھی مسودہ اگر تیار کیا گیا ہے تو اس کو منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے ۔ سارے ملک میں اس پر وسیع تر مباحث کئے جانے چاہئیں۔
جو اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں وہ یہی ہیں کہ حکومت ایک ایسا پروگرام طئے کرکے نافذ کرنا چاہتی ہے جس پر اپوزیشن جماعتوں کو اعتراض ہے ۔ اپوزیشن کو اندیشے ہیں کہ حکومت ایسے کچھ دفعات پر کام کر رہی ہے جو ملک کے دستور میں فراہم کردہ گنجائشوں کے مغائر ہوسکتے ہیں۔ اس پر حالانکہ کوئی واضح صورتحال سامنے نہیں آئی ہے لیکن اندیشے اور شبہات ضرور تقویت پا رہے ہیں۔ ایسے میں حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملک کے جمہوری عمل کا حصہ بننے والے سبھی شراکت داروں کی رائے حاصل کرے ۔ ان کے سامنے اپنی تجاویز پیش کرے ۔ اس کا مسودہ منظر عام پر لایا جائے ۔ جمہوری عمل کے شراکت داروں کی رائے حاصل کی جائے ۔ جمہوریت میں چونکہ عوام کو سب سے مرکزی اور اہم مقام حاصل ہے اسی لئے عوامی سطح پر اس پر مباحث کروائے جائیں اور پھر سبھی کی رائے کا تجزیہ کرتے ہوئے اس پر کوئی فیصلہ کیا جانا چاہئے ۔ سارا عمل انتہائی محتاط انداز میں پورا کیا جانا چاہئے ۔ہر گوشے کی رائے اور تجاویز کا احترام کرنا حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے ۔ ویسے بھی جمہوریت میں سبھی کو ساتھ لے کر چلنا ضروری ہوتا ہے اور اب تک ایک ملک اور ایک الیکشن جیسی بڑی تجویز حکومت کے سامنے ہے تو پھر اس کا جائزہ سبھی گوشوں کی جانب سے لیا جانا ضروری ہے ۔ سبھی گوشوں کی رائے کو مقدم رکھا جانا چاہئے ۔ جو تجاویز اپوزیشن سے بھی حاصل ہوں ان کا جائزہ لیتے ہوئے ضروری ہوجائے تو ان کو بھی مسودہ میں شامل کیا جانا چاہئے ۔
حکومت اپنے طور پر جو کچھ بھی اقدامات کر رہی ہے وہ ایسا کرنے کی مجاز ضرور ہے لیکن جو کمیٹی بنائی گئی ہے اس میں اپوزیشن کو کسی بھی سطح پر کوئی نمائندگی نہیں دی گئی ہے ۔ کسی بھی ایسی جماعت کو اس میں شامل نہیں کیا گیا ہے جو حکومت سے اختلاف رکھتی ہو ۔ یہ ایک طرح سے اپنی مرضی مسلط کرنے اور طئے شدہ ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کی کوشش ہی کہی جاسکتی ہے ۔ اس پر جو شبہات ہیں اور جو اندیشے لاحق ہو رہے ہیں ان کا ازالہ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ حکومت کو اس ذمہ داری کو بہرصورت پورا کرنا چاہئے کیونکہ یہ سارے ملک کا مسئلہ ہے اور اس ملک میں اپوزیشن جماعتوں کا بھی اپنا وجود اور ان کا اپنا حلقہ اثر ضرور موجود ہے ۔