ایگزٹ پولس کے نتائج

   

گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اُچھلتا ہے کیا
ایگزٹ پولس کے نتائج
ملک بھر میں لوک سبھا انتخابات 2019 کیلئے پولنگ مکمل ہوچکی ہے ۔ سات مراحل میں ملک کے عوام نے اپنے حق رائے دہی سے استفادہ کیا ہے ۔ ان انتخابات کیلئے شدت کے ساتھ مہم چلائی گئی تھی اور سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کو سخت تنقیدوں کا نشانہ بنایا تھا ۔ اب جبکہ رائے دہی مکمل ہوچکی ہے ایسے میں ٹی وی چینل اور دوسرے اداروں کے ایگزٹ پولس سامنے آنے شروع ہوگئے ہیں۔ ان ایگزٹ پولس میں نریندرمودی کی قیادت والے این ڈی اے اتحاد کو واضح اکثریت کے ساتھ دوبارہ اقتدار کی پیش قیاسی کی جا رہی ہے ۔ حالانکہ یہ صرف ایگزٹ پولس ہیں اور ان میں غلطی کا امکا ن بھی غالب رہتا ہے تاہم بی جے پی کے حلقوں نے ان ایگزٹ پولس کے بعد راحت کی سانس لی ہے ۔ بی جے پی کو انتخابات میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور خاص طور پر کانگریس نے حکومت کے خلاف انتہائی شدت کے ساتھ جارحانہ مہم چلائی تھی ۔ کانگریس صدر راہول گاندھی اور پارٹی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے تقریبا ہر انتخابی جلسہ اور تقریر میں بی جے پی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے آڑے ہاتھوں لیا تھا ۔ بی جے پی نے بھی سارے انتخابی عمل اور انتخابی مہم کے دوران کانگریس کو ہی نشانہ پر رکھا تھا ۔ جو ایگزٹ پولس اب تک سامنے آئے ہیں ان میں سب سے اہم پیش قیاسیاں اترپردیش سے سامنے آ رہی ہیں جہاں سماجوادی پارٹی ۔بہوجن سماج پارٹی اتحاد کو بی جے پی پر واضح اکثریت ملتی دکھائی دے رہی ہے ۔ ایس پی ۔ بی ایس پی اور آر ایل ڈی اتحاد ابتداء ہی سے اس یقین کے ساتھ میدان میں اترا تھا کہ اسے اتحاد کی وجہ سے بی جے پی کے خلاف اچھی کامیابی مل سکتی ہے اور ایگزٹ پولس میں یہ یقین پورا ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ جن اداروں کا بی جے پی کی سمت جھکاو واضح ہوتا ہے ان کے سروے میں بھی اس اتحاد کو کامیابی کی پیش قیاسی کی گئی ہے ۔ بی جے پی کو اس ریاست میں 2014 میں ہوئے لوک سبھا انتخابات میں 71 نشستوں پر کامیابی ملی تھی لیکن ایسا تاثر مل رہا ہے کہ یہاں بی جے پی کو 40 سے زیادہ نشستوں کا نقصان ہوسکتا ہے ۔
ایگزٹ پولس کے نتائج کو تقریبا ہر جماعت قبول کرنے سے انکار کرتی ہے ۔ وہ جماعت بھی اس پر یقین کرنے سے گریز کرتی ہے جسے اقتدار کی پیش قیاسی کی جا رہی ہے ۔ ان جماعتوں کا استدلال ہوتا ہے کہ انہیں اس سے زیادہ کامیابی حاصل ہوگی ۔ یہ حقیقت ہے کہ بیشتر موقعوں پر ایگزٹ پولس کے نتائج حقیقی نتائج سے معمولی سے فرق کے ساتھ قریب تر ہوتے ہیں تاہم 2004 اور 2009 میں ان ایگزٹ پولس کے نتائج یکسر مختلف ہوئے تھے ۔ دونوں ہی مرتبہ ایگزٹ پولس میں بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے کو کامیابی کی پیش قیاسی کی گئی تھی اور یو پی اے کو کافی پیچھے دکھایا گیا تھا لیکن ان دونوں ہی مرتبہ کانگریس زیر قیادت یو پی اے نے کامیابی حاصل کی تھی ۔ اس طرح اس امکان سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایگزٹ پولس میں غلطیوں کا احتمال بھی رہتا ہے اور اس کے نتائج حقیقی نتائج سے مختلف بھی ہوسکتے ہیں ۔ تاہم ایک تاثر یہ ضرور سامنے آ رہا ہے کہ جہاں اتحادی جماعتوں نے مشترکہ طور پر مقابلہ کیا تھا اور قبل از وقت اپنے اتحاد کو قطعیت دیتے ہوئے ایک حکمت عملی کے تحت انتخابی مہم چلائی تھی انہیں اچھی کامیابی مل سکتی ہے ۔ اس کی مثال اترپردیش سے مل رہی ہے جہاں تقریبا ہر سروے میں ایس پی ۔ بی ایس پی اتحاد کو کامیابی ملنے کی پیش قیاسی کی جا رہی ہے ۔
جو ایگزٹ پولس آخری مرحلہ کی پولنگ کے فوری بعد سامنے آئے ہیں ان میں حالانکہ بیشتر میں این ڈی اے اتحاد کو اقتدار کی پیش قیاسی کی جا رہی ہے تاہم یہ بات ضرور قابل غور ہے کہ ہر سروے میں این ڈی اے اور بی جے پی کو ملنے والی نشستوں کی تعداد میں واضح فرق دکھائی دے رہا ہے ۔ ایک سروے میں تو این ڈی اے اتحاد کو 242 تک ہی محدود دکھایا جا رہا ہے جس کے مطابق این ڈی اے کو اقتدار حاصل نہیں ہو پائیگا اور اگر اقتدار حاصل کرنا ہے تو اسے دیگر جماعتوں کی تائید و حمایت بھی حاصل کرنی ہوگی جو پہلے سے این ڈی اے کا حصہ نہیں ہیں۔ اس صورتحال میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایگزٹ پولس کو حقیقی نتائج نہیں سمجھا جاسکتا اور حقیقی نتائج اور صحیح صورتحال کے ابھرنے کیلئے 23 مئی کا انتظار کرنا پڑیگا جب ووٹوں کی گنتی ہوگی اور الیکشن کمیشن کی جانب سے باضآبطہ نتائج کا اعلان کیا جائیگا ۔