باب الحوائج حضرت امام موسیٰ کاظمؑ

   

الحاجہ سیدہ صالحہ برہانہ ( شاہین )

ابتدائے آفرینش سے حق و باطل کی جنگ جاری ہے ۔ جب سے شیطان نے جناب آدم کو جنت سے نکلوایا اور اس کے بعد زمین پر قابیل نے ہابیل کو قتل کیا ہے تب سے لیکر آج تک رذائل و فضائل اور باطل و حق کے درمیان مستقل جنگ چلی آرہی ہے۔ جب کبھی باطل نے ظلم کی تلوار اٹھائی ہے حق کے نمائندوں نے اپنے سینوں کو سپر بناکر خون کے آخری قطرے تک حق و حقانیت کا دفاع کیا ہے۔
’’بنی عباس‘‘ نے ’’بنی اُمیہ‘‘سے فسق و فجور کی وراثت پائی تھی نتیجے میں آل محمد پر ’’بنی امیہ‘‘ کے ظلم و جور کو بنی عباس نے بھی جاری رکھا۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ شہداء کا خون ہمیشہ ظلم کی تلوار پر غالب رہا اور اس نے اسلام و مسلمین کی عزت و شوکت کی پاسبانی کی۔خاندان نبوت کے ساتویں چشم و چراغ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے ظلم و تشدد کی آستینوں میں پوشیدہ تمام بستوں کو اپنے جد امجد علی مرتضیٰ علیہ السلام کی طرح نکال کر زمانے کے سامنے چکنا چور کردیا تھا اور دنیا کو ان نام و نہاد مسلمانوں کے حقیقی چہروں سے آشنا کرادیا تھا۔اموی حکومت اپنی عمر کے آخری لمحات گزار رہی تھی اور اس کی سانسیں گنی جا رہی تھیں کہ بُرج امامت کے ساتویں درخشاں ستارے اور عصمت و طہارت کے نویں درّے بے بہا نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے خانوادۂ امامت میں آنکھیں کھولیں، آپؑ کی ولادت نے دنیائے علم و معرفت کو ایک تازہ خوشخبری عطا کی اور دلوں میں اُمید و سعادت کا نور روشن کیا۔وہ مقام جہاں اس نو مولود نے عرصۂ حیات میں قدم رکھا وہ پیغمبر اسلامؐ کی مادر گرامی قدر جناب آمنہؓ کی آرام گاہ ہے جو ’’ابواء ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کے سفر حج سے واپس آتے ہوئے اس مقام پر امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔
آپؑ کی والدہ گرامی ’’جناب حمیدہ‘‘ اندلسی ہیں جو فضیلت و تقویٰ و شائستگی و لیاقت میں بے نظیر تھیں، اس نومولود مسعود کے لئے جو نام منتخب ہوا وہ ’’موسیٰ‘‘ تھا۔ کہ اس وقت تک خاندان رسالت میں اس نام سے کوئی شخص موسوم نہیں تھا۔ البتہ تاریخ انبیاء سابقین کی طویل فہرست میں یہ نام موجود ہے یہ نام حضرت موسیٰ ابن عمران کے مجاہدات، جد و جہد اور بت شکنی کی یاد دلانے والا بلکہ اس کی تجدید کرنے والا تھا۔ امام کاظم ؑ کی ولادت با سعادت اکثر مورخین کی متفقہ رائے کے مطابق ۷؍صفر ۱۲۸ھ؁ ہے۔ آپ قرآن مجید کی تلاوت ایسے حزیں ترنم و خوش الحانی کے ساتھ اور ایسی دل آویز و دل نشیں آواز میں فرماتے تھے۔ جو دنیا کے اہل نظر افراد کے لئے لطف آفریں و صفائی قلب کا باعث ہوئی تھی۔ اور جو لذت بخش بھی ہوتی تھی اور انسان ساز بھی ۔ امام کاظم ؑکے حلم کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ آپؑ کے اسم مبارک کے ساتھ”کاظم‘‘ کا لقب آپ کے اسی وصف کی ترجمانی کرتا ہے۔ آپ ہمیشہ غصہ پی جایا کرتے تھے۔ محمد بن طلحہ شافعی آپؑ کی سیرت بیان کرتے ہیں کہ :’’ امام موسی کاظم ؑ جلیل القدر، بڑی شان والے، شب زندہ دار، عبادات میں مشہور، اطاعت پر پابند اور کرامات میں معروف تھے۔ دن میں روزہ رکھتے تھے اور رات کو نماز میں مشغول رہتے۔ آپؑ زیادہ صدقہ دیا کرتے تھے اور مجرموں اور آپؑ پر ظلم کرنے والوں کو بخشنے کی وجہ سے آپؑ کو کاظم لقب ملا۔ جب کوئی آپؑ کی برائی کرتا، آپؑ اُس کے بدلے اُس پر احسان اور نیکی کرتے۔ جو بھی آپؑ پر ظلم کرتا، آپؑ اس کو معاف کر تے۔ کثرت عبادت کی وجہ سے آپ کو عبد صالح کا لقب مل گیا۔ لوگوں کے درمیان باب الحوائج الی اللہ کے لقب سے مشہور ہیں۔ آپؑ کی بارگاہ میں توسل کرنے سے مشکلات حل ہوجاتی ہیں۔ اللہ تعالی کے ہاں آپ کا بہت بڑا مقام و منزلت ہے‘‘۔امام کا دور حیات حوادث و مصائب کے مقابلے میں ارادۂ محکم و عزم مصمم، شجاعت و پامردی، استقامت و پائیداری اور ایثار و قربانی سے معمور تھا۔آپ کی پائیدار و مستقیم روش بغیر کسی انحراف و کجی کے خطِ مستقیم اسلام کی عکاسی کرتی تھی اور نا مساعد و آزمائش خیز حالات میں تمیز حق و باطل کی نشاندہی کرتی تھی۔مختلف قید خانوں میں آپ کی عبادت، تضرع و زاری اور آپ کے طولانی سجدوں نے دشمنوں کو حیرت و استعجاب میں ڈال دیا۔عباسی خلیفہ ہارون رشید آپؑ کی غیر معمولی مقبولیت سے بہت ہراساں تھا اور اور آپؑ کو ایک قید خانہ سے دوسرے قید خانہ میں منتقل کرتا رہابالآخر سندی بن شاہک کے ذریعہ امام موسیٰ کاظم ؑکو ۲۵ رجب کو زہر دیکر شہید کر وا ڈالا۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَo