بات کرتا ہے زمانہ کو بدل دینے کی

   

ایودھیا تنازعہ پر ثالثی … سنگھ پریوار اہم رکاوٹ
فوجی کارروائی پر بی جے پی کا انتخابی سفر
رشیدالدین

سپریم کورٹ نے 70 سالہ قدیم ایودھیا تنازعہ کی یکسوئی کیلئے سہ رکنی ثالثی گروپ تشکیل دیا ہے۔ 8 ہفتہ میں فریقین سے مشاورت کی تکمیل اور کسی نتیجہ پر پہنچنے کی خواہش کی گئی۔ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس خلیف اللہ کی سرکردگی میںسری سری روی شنکر اور سینئر ایڈوکیٹ سری رام پنچو کو یہ ذمہ داری دی گئی ۔ سپریم کورٹ میں دراصل اراضی کی ملکیت کا معاملہ زیر دوران ہے۔ تاہم پانچ رکنی بنچ نے عدالت کے باہر یکسوئی کے سلسلہ میں غیر معمولی قدم اٹھایا ہے۔ سپریم کورٹ کی یہ کوشش یقیناً قابل ستائش ہے اور ہر فریق کو اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے معاملہ کی خوشگوار یکسوئی میں تعاون کرنا چاہئے ۔ ایودھیا تنازعہ محض کسی ایک فرقہ کے جذبات سے وابستہ مسئلہ نہیں بلکہ یہ ملک کے اتحاد و یکجہتی اور سالمیت سے جڑا مسئلہ ہے۔ 1992 ء میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد گزشتہ 26 برسوں سے یہ تنازعہ مختلف عدالتوں میں زیر دوران رہا ۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کردیا جس کے بعد ملکیت کا یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا ۔ ثالثی اور مصالحت کا مقصد فریقین کے جذبات کا احترام کرنا ہوتا ہے لہذا کامیاب ثالثی کی صورت میں بابری مسجد کی دوبارہ تعمیر کے امکانات روشن ہوں گے ۔ تاہم وہ کس مقام پر اور کس نوعیت کی ہوگی ، اس کا فیصلہ نتیجہ پر منحصر ہوگا ۔ سابق میں چار مرتبہ اس تنازعہ کی یکسوئی کیلئے مصالحتی کوششیں کی جاچکی ہیں لیکن ہمیشہ جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کے سبب یہ کوشش ناکام ثابت ہوئیں ۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ثالثی پیانل کے اعلان کے فوری بعد وشوا ہندو پریشد اور دیگر جارحانہ فرقہ پرست تنظیموں نے اس مساعی کو لاحاصل قرار دیتے ہوئے اس بات کا اشارہ دے دیا ہے کہ وہ اس مساعی میں شامل نہیں ہوں گے۔ ان کا موقف کا ہے کہ ایودھیا میں کسی بھی مقام پر مسجد کی تعمیر کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ ایسے میں مصالحت کی کوششیں ثمر آور نہیں ہوں گی۔ ثالثی پیانل میں شامل افراد کا کسی بھی فریق سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے لیکن سری روی شنکر رام مندر کی تعمیر کے حق میں یکطرفہ بیان بازی کرچکے ہیں۔ انہوں نے یہاں تک کہہ تھا کہ اگر مسلمان اراضی سے دستبردار نہ ہوں گے تو شام جیسی صورتحال پیدا ہوجائے گی ۔ اب جبکہ سپریم کورٹ نے انہیں ثالث مقرر کیا ہے ، دیکھنا ہے کس حد تک غیر جانبدار رہیں گے ۔ عدالت نے تینوں ارکان کو اختیار دیا ہے اگر وہ چاہیں تو مزید ارکان کو شامل کرسکتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ثالثی کی تمام کوششیں انتہائی رازداری میں انجام دینے اور میڈیا کو کوریج سے دور رکھنے کی ہدایت دی ہے۔ ظاہر ہے کہ میڈیا کے اوور ایکشن کے سبب اکثر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ایودھیا جو کہ انتہائی حساس معاملہ ہے، اس کی اگر ثالثی کے ذریعہ یکسوئی ہوجائے تو یقیناً سپریم کورٹ کا کارنامہ تصور کیا جائے گا ۔ سنگھ پریوار کی جانب سے عدم تعاون کی صورت میں سپریم کورٹ کس طرح نمٹے گا ، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔ مصالحتی کوششوں کی کامیابی کا دارومدار مرکزی حکومت کے رویہ پر منحصر ہے ۔ مرکز میں ایسی حکومت برسر اقتدار ہے جس کے ایجنڈہ میں رام مندر کی تعمیر شامل ہے اور وہ نہیں چاہے گی کہ مسئلہ کی یکسوئی ہو اور اس کے ہاتھ سے سیاسی فائدہ کا ایک ہتھیار چھن جائے ۔
ہند۔پاک سرحد پر کشیدگی کیا لوک سبھا انتخابات تک برقرار رہے گی؟ پلوامہ دہشت گرد حملہ اور اس کے بعد فضائیہ کی کارروائی سے سرحد پر جو ماحول پیدا ہوا ہے ، عوام کے ذہنوں میں سوال اٹھ رہے ہیں کہ یہ کشیدگی محض سیاسی تو نہیں؟ اسے محض اتفاق کہا جائے یا کچھ اور کہ کشیدگی نے بی جے پی کو حب الوطنی کے چمپین کے طور پر ابھرنے کا موقع فراہم کردیا ۔ ساڑھے چار برسوں میں عوام سے کئے گئے وعدوں میں ناکام حکومت کیلئے پلوامہ دہشت گرد حملہ حقیقی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کا ذریعہ بن گیا ۔ پلوامہ حملہ انٹلیجنس کی ناکامی تھی یا نہیں؟ پاکستانی علاقہ میں دہشت گرد ٹھکانوں پر فضائی حملہ کس قدر کامیاب رہا ؟ان سوالات کے قطع نظر بی جے پی اور مودی حکومت کا بس ایک ہی نعرہ ہے ’’مستند ہے میرا فرمایا ہوا ‘‘ ۔ وہ کسی سوال کو سننے تیار نہیں اور جو شک کرے گا، اس پر ملک دشمنی کا لیبل لگادیا جائے گا ۔ الغرض بی جے پی نے فضائی حملہ پر انتخابی سیاست کو تیز کردیا ہے ۔ وزیراعظم سے لیکر ایک عام کارکن تک یہ تاثر دینے کی کوشش ہے کہ جیسے جوابی کارروئی نہیں بلکہ جنگ جیت لی گئی۔ فوجی کارروائی کا سہرا اگر سیاسی قائدین اپنے سرلیں تو یہ ایک غیر صحتمندانہ روایت کا آغاز ہوگا ۔ فوج کا کسی پارٹی سے تعلق نہیں ہوتا، وہ ملک کی نگہبان ہوتی ہے ، اسے کسی پارٹی کے رنگ میں رنگا نہیں جاسکتا ، اس کا رنگ اور پرچم تو صرف ترنگا ہے ۔ لوک سبھا انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن انتخابی شیڈول کا کسی بھی لمحہ اعلان کرسکتا ہے ۔ کمیشن نے انتخابی تیاریوں کا جائزہ مکمل کرلیا تو دوسری طرف مرکزی حکومت نے اپنے آخری کابینی اجلاس میں اہم فیصلے کئے ۔ انتخابات سے عین قبل نریندر مودی کو ریاستوں کی یاد ستانے لگی۔ 2014 ء انتخابات میں تمام ریاستوں کے دورہ کے بعد اب دوبارہ انتخابی مہم کیلئے ریاستوں کا رخ کر رہے ہیں ۔ وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے کے بعد نریندر مودی نے بیرونی دوروں کا ریکارڈ قائم کردیا ہے ۔ پانچ سال میں شائد ہی کسی ملک کے سربراہ نے اس قدر بیرونی دورے کئے ہوں۔ برخلاف اس کے مودی نے تمام ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں کا دورہ تک نہیں کیا۔ انتخابات آتے ہی مودی کو اپنی ماں اور آبائی ریاست یاد آگئی ۔ گجرات کا دورہ کرتے ہوئے مختلف پراجکٹس کا افتتاح کیا اور ماں کا آشیرواد حاصل کیا۔ ضعیف ماں کی آنکھیں یقیناً بہو کو تلاش کر رہی ہوں گی جو اس عمر میں خدمت کرے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ نریندر مودی ماں کی دعا کے ساتھ شریک حیات کی نیک تمنائیں بھی حاصل کرتے جو بے سہارا خواتین کے کسی آشرم میں اپنے شوہر نامدار کا راستہ تک رہی ہے۔ عالمی یوم خواتین کے موقع پر سہی یشودھا بین کو انصاف ملنا چاہئے تھا ورنہ نریندر مودی کو یوم خواتین منانے کا اخلاقی جواز نہیں رہے گا۔ انتخابی جنگ کا میدان ملک میں تیار ہوچکا ہے اور سیاسی جماعتیں صف بندی میں مصروف ہیں۔ عام طور پر مہم کا آغاز اعلامیہ کی اجرائی کے بعد ہوتا ہے لیکن ہند۔پاک کشیدگی نے انتخابی ماحول کو گرمادیا ہے۔ کانگریس پارٹی نے تو اپنی پہلی فہرست بھی جاری کردی ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہر پارٹی سرحدوں کی کشیدگی پر سیاست میں سبقت لے جانا چاہتی ہے۔ کسی کو فوجی کارروائی کی آڑ میں سیاسی فائدہ کا یقین ہے تو کوئی حکومت کے دعوؤں کا ثبوت مانگ رہے ہیں۔ ان سوالات کے لئے حکومت ذمہ دار ہے کیونکہ سرکاری سطح پر تضاد بیانی دیکھی گئی ۔ وزیراعظم ، بی جے پی صدر، وزیر دفاع ، مملکتی وزیر دفاع حتیٰ کہ فوجی سربراہوں نے نقصانات کے بارے میں علحدہ علحدہ دعوے کئے ہیں۔ فوج پر عوام کو اعتماد ہے اور صرف اتنا کافی تھا کہ دہشت گرد ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا لیکن یہاں تو حملہ کے ساتھ ہی نعشوں کی گنتی ہونے لگی۔ حساب کتاب میں ہر کوئی پرفیکٹ نہیں ہوتا ، اسی طرح ہلاکتوں کی تعداد بتائی جانے لگی۔ حد تو یہ ہوگئی کہ اس کارروائی میں مسعود ا ظہر کے صفائے کا دعویٰ کیا گیا۔ بین الاقوامی میڈیا نے جب ان دعوؤں سے اختلاف کیا تو یہ کہہ دیا گیا کہ ہم نے گنتی نہیں کی ۔ کسی نے میڈیا کے سر سارا وبال انڈھیل دیا۔ حملہ کی سچائی ثابت کرنے کیلئے تینوں افواج کے سربراہوں کو میڈیا سے روبرو کرایا گیا۔ دشمن کے خلاف فوجی کارروائی کا کریڈٹ یوں تو ہر برسر اقتدار پارٹی لینا چاہتی ہے لیکن ملک کی تاریخ میں شائد پہلی مرتبہ فوج کا اس قدر سیاسی استحصال کیا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پلوامہ دہشت گرد حملہ کے شہید جوانوں کی بیواؤں نے جوابی کارروائی کا ثبوت مانگا ہے۔ پلوامہ حملہ میں انٹلیجنس کی ناکامی پر حکومت خاموش کیوں ہے ؟ پاکستان نے ہندوستانی پائلٹ کو رہا کر کے بی جے پی کے سیاسی عزائم پر پانی پھیردیا ورنہ یہاں تو شہیدوں کے لواحقین کے آنسو سوکھنے سے قبل ہی سیاست شروع ہوگئی تھی ۔ دوسری طرف پاکستان میں مخالف ہندو ریمارکس پر صوبہ پنجاب کے وزیر فیاض الحسن چوہان کا استعفیٰ طلب کرلیا گیا۔ انہوں نے کشیدگی کے پس منظر میں بعض قابل اعتراض ریمارکس کئے تھے۔ پاکستان کی صوبائی حکومت کا یہ فیصلہ کیا ہندوستان کے لئے قابل تقلید نہیں ہے ، جہاں روزانہ مرکزی وزراء ، چیف منسٹرس حتیٰ کہ بی جے پی کے مقرر کردہ گورنرس مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرتے رہے ہیں ؟ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے پاکستانی حکومت کی اس کارروائی کے حوالے سے ہندوستان میں مخالف مسلم بیانات کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی مانگ کی ہے۔ ایک گورنر نے پاکستان کو آگ لگانے کی بات کہی ۔ شائد وہ بھول رہے ہیں کہ سکھوں کا مقدس ترین مقام ننکانہ صاحب پاکستان میں ہے۔ گورنر، چیف منسٹرس، مرکزی و ریاستی وزراء کو اس طرح کے بیانات کا حق کس نے دیا ہے۔ مودی بھلے ہی کارروائی نہ کریں لیکن عوام کو یہ بیانات ضرور یاد ہیں۔ پروفیسر وسیم بریلوی نے کیا خوب کہا ہے ؎
بات کرتا ہے زمانہ کو بدل دینے کی
اپنا ہی گھر تو سنبھالا نہیں جاتا اس سے