باجماعت تراویح ادا کرنا اور خلفاء راشدین کا نام لینا

   

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ تراویح میں ہر چار رکعت کے بعد تسبیح پڑھی جاتی ہے۔ بعض حضرات اس کے مخالف ہیں اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اگر تسبیح پڑھنا بھی ہو تو آہستہ آہستہ پڑھا کریں، اس قدر زور سے نہیں پڑھنا چاہئے ۔ علاوہ ازیں ہر چار رکعت کے بعد نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے نام لئے جاتے ہیں، کیا قرآن و حدیث سے اس کا ثبوت ہے ۔ بسا اوقات کسی مصروفیت کی وجہ سے جماعت چھوٹ جاتی ہے تو کیا ایسی صورت میں گھر میں تراویح پڑھ سکتے ہیں ؟

جواب : تراویح میں ہر چار رکعات کے بعد اسی قدر مقدار میں بیٹھنا مستحب ہے اور نمازیوں کو اختیار ہے کہ نفل پڑھیں یا قرآن مجید کی تلاوت کریں یا تسبیح پڑھیں یا خاموش بیٹھیں رہیں۔ اہل مکہ طواف کرتے اور دوگانہ طوفا پڑھا کرتے تھے اور اہل مدینہ چار رکعت نماز علحدہ علحدہ پڑھا کرتے تھے ۔ نیز ہندوستان میں قدیم سے تسبیح پڑھنے کا رواج ہے جو فقہی کتابوں سے ثابت ہے اس کی مخالفت صحیح نہیں۔ عالمگیری میں ہے : ’’ویستحب الجلوس بین الترو یحتین قدر ترویحۃ ثم ھم مخیرون فی حالۃ الجلوس ان شاء و اسبحوا و ان شاء و اقعدوا ساکتین و اھل مکۃ یطوفون و یصلون واہل المدینۃ یصلون اربع رکعات فرادی ‘‘ مصلیوں کو اختیار ہے وہ جو صورت چاہیں اختیار کریں۔

۲۔ تراویح کے ہر چار رکعت کے بعد اگر بلند آواز سے تسبیح پڑھتے ہیںتو شرعاً جائز ہے۔ بزازیہ میں ہے :’’ ان الذکر بالجھر فی المسجد لا یمنع احترازا عن الدخول تحت قولہ تعالی و من اظلم ممن منع مساجد اللہ ان یذکر فیھا اسمہ ‘‘ تاہم ایسی بلند آواز سے نہ پڑھی جائے جس سے دوسرے مصلیوں کو خلل ہو۔
۳۔ ہر چار رکعت کے بعد تسبیح پڑھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات خلفاء راشدین کے اسماء گرامی جو لئے جاتے ہیں اس کی کوئی سند نہیں۔ تاہم اگر اس خیال سے کہ تراویح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور جماعت خلفاء راشدین کی سنت ہے ۔ اس کی یاد تازہ رہے اور تعداد رکعات معلوم ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
۴۔ تراویح کو مسجد میں باجماعت ادا کرنا سنت کفایہ اور اہل سنت والجماعت کا شعار ہے۔ اگر محلہ کی مسجد میں چند اشخاص بھی اس کو باجماعت ادا کرلیں تو بقیہ اہل محلہ کیلئے جماعت کی پابندی باقی نہیں رہتی۔ اور اگر اہل محلہ سے مسجد میں کوئی بھی تراویح باجماعت ادا نہ کرے تو تمام اہل محلہ گنہگار ہوں گے۔ تراویح کی جماعت ترک نہیں کرنا چاہئے ۔ اگر کوئی جماعت سے نہ پڑھ سکے تو اس کو تنہا بیس رکعتیں پڑھنا چاہئے۔ مبسوط ج ۲ ص ۱۴۵ میں شمس الائمہ سرخسی فرماتے ہیں : ’’ و ذکر الطحاوی رحمہ اللہ تعالیٰ فی اختلاف العلماء و قال لا ینبغی ان یختار الانفراد علی وجہ یقطع القیام فی المسجد فالجماعۃ من سنن الصالحین و الخفاء الراشدین رضوان اﷲ علیھم اجمعین حتی قالوا رضی اﷲ عنھم نور اﷲ قبر عمر رضی اﷲ عنہ کما نور مساجد نا والمبتدعۃ انکروا ادائھا بالجماعۃ فی المسجد فادائھا بالجماعۃ جعل شعارا للسنۃ کاداء الفرائض بالجماعۃ شرع شعار الاسلام ‘‘۔

مالِ نصاب پر سال گزرتے ہی زکوٰۃ نکالنا
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہر سال ماہ رمضان میں زکوٰۃ نکالی جاتی ہے بجائے ماہ رمضان میں زکوٰۃ نکالنے کے ہر سال ماہ شعبان میں زکوٰۃ نکالنے سے زکوٰۃ ادا ہوگی یا نہیں ؟ ۲۔ اگر کسی مستحق کو بغیر بولے کے زکوٰۃ کی رقم دینے سے زکوٰۃ ادا ہوگی یا نہیں ۔ شرعا ان دنوں کا کیا حکم ہے؟
جواب : صورت مسئول عنہا میں زکوٰۃ کی ادائیگی رمضان میں محدود نہیں، بلکہ جب بھی مالِ نصاب پر ایک سال گزر جائے تو صاحب نصاب پر زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہے۔ اگر کسی کے مال پر شعبان میں ایک سال ہوتا ہو تو شعبان میں زکوٰۃ ادا کرنا چاہئے ۔ تاہم ایک سال سے قبل اور ایک سال کے بعد زکوٰۃ ادا کی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ عامتہ المسلمین رمضان میں عبادات کے اجر و ثواب میں غیر معمولی اضافہ کے سبب رمضان میں زکوٰۃ دینا پسند کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص زکوٰۃ کا مستحق ہے تو اس کو زکوٰۃ کی رقم کہے بغیر زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ۔ فقط واللہ أعلم