باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم

,

   

ٹیپو سلطان سے نفرت … مسلمانوں کو قتل کی دھمکی
ساورکر ، گوڈسے کے وارثوں کو مسلم حکمراں پسند نہیں

رشیدالدین
ہندوستان کیا ہندو راشٹر بن چکا ہے ؟ کیا ہندوستان پر مسلمانوں کا کوئی حق نہیں ہے؟ ہندوستان میں مسلمان حصہ دار نہیں بلکہ کیا کرایہ دار ہیں؟ کیا ملک کی تاریخ اور آزادی کے مجاہدین سے انکار کیا جاسکتا ہے؟ ظاہر ہے ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہوگا۔ دستور ، قانون اور جمہوری اصولوں کے تحت ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور دوسرے مذاہب کی طرح مسلمانوں کا ملک پر برابر کا حق ہے ۔ مسلمان ملک میں کرایہ دار نہیں بلکہ ساجھیدار ہیں۔ جدوجہد آزادی کے تمام سورماؤں پر قوم کو فخر ہے۔ جب سچائی اور حقیقت یہی ہے تو پھر نفرت کے سوداگروں کو کھلی چھوٹ کس نے دے رکھی ہے۔ فرقہ پرستی کی تاریخ ملک کی آزادی کی تاریخ کے ساتھ چل رہی ہے اور ہر دور میں سماج کو توڑنے کی سازش کرنے والے عناصر موجود رہے لیکن 2014 ء کے بعد سے صورتحال بدل گئی اور اقتدار کے نشہ میں جارحانہ فرقہ پرست عناصر مسلمانوں کو کھلے عام قتل کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ یہ بے لگام عناصر کبھی زبان تو کبھی ہاتھ سے مسلمانوں کو نشانہ بنارہے ہیں اور حکومت ہے کہ بس تماش بین بنی ہوئی ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کا جیسے مقابلہ چل رہا ہو کہ کون کس قدر نفرت اور بھڑکاؤ بھاشن دے سکتا ہے ۔ حکومت اور قانون کا کوئی ڈر باقی نہیں رہا۔ اسلام اور مسلمانوں پر حملوں کا جائزہ لیں تو محسوس ہوتا ہے کہ سنگھ پریوار کے نزدیک مسلمان لاوارث اور بے یار و مددگار ہیں۔ مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں جو ظلم کے خلاف آواز اٹھائے۔ ماب لنچنگ کے واقعات تھمنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہریانہ میں دو مسلم نوجوانوں کو زندہ جلادیا گیا اور شبہ کیا جارہا ہے کہ بیف کے نام پر یہ قتل کیا گیا۔ کہیں بیف تو کہیں لو جہاد کے نام پر مسلمانوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ نفرت کے عروج کا یہ عالم ہے کہ ٹرین اور راستہ میں کوئی داڑھی اور ٹوپی والا دکھائی دے تو اس پر ایسا ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے مردار پر گدھ ۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی جو کبھی بند کمروں تک محدود تھی ، آج برسر عام ہونے لگی ہے ۔ سیاستداں اور پنڈت کا روپ دھارے ہوئے بہروپیے بھی زبان درازی کرنے لگے ہیں۔ آسام ، اترپردیش اور کرناٹک ، سنگھ پریوار اور ہندوتوا کی تجربہ گاہ اور لیباریٹریز بن چکے ہیں۔ کبھی مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال کھڑے کئے جاتے ہیں تو کبھی پاکستان جانے کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔ کبھی شہریت ختم کرنے کی منصوبہ بندی تو کہیں لو جہاد کے نام پر تشدد ۔ مسلمانوں کے کھانے پینے اور ان کے رہن سہن ، تہذیب اور تمدن پر بھی اعتراض ہے۔ دینی مدارس کو بند کرتے ہوئے مسلمانوں کو اسلام سے دور کرنے بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں سروے شروع کیا گیا۔ الغرض ایک ہنگامۂ محشر ہو تو اس کو بھولوں، سینکڑوں باتوں کا رہ رہ کے خیال آتا ہے۔ آزادی کے 65 برس میں جو کچھ ہوا ، بی جے پی اقتدار کے 9 برسوں میں اس سے زیادہ نفرت اور مظالم ہوئے۔ روزانہ نفرت کا زہر اگلتے ہوئے ایک نیا کردار منظر عام پر آتا ہے۔ تازہ ترین نفرت کے سوداگر کی حیثیت سے کرناٹک بی جے پی کے صدر نلین کمار نے ٹیپو سلطان کے نام پر مسلمانوں کو قتل کی دھمکی دے ڈالی۔ آسام کے چیف منسٹر ہیمنت بسوا شرما کی زہریلی زبان کو لوگ بھولے نہیں ہیں کہ کرناٹک سے نئے کردار نے جنم لیا۔ کرناٹک اسمبلی انتخابات میں ہندو ووٹ بینک مستحکم کرنے کیلئے بی جے پی ریاستی صدر خود میدان میں آگئے۔ کرناٹک میں شیر میسور ٹیپو سلطان کے خلاف نفرت انگیز مہم کو آگے بڑھاتے ہوئے نلین کمار نے ٹیپو سلطان کے حامیوں کو ہلاک کرنے کی ہندوؤں سے کھلے عام اپیل کی اور کہا کہ ٹیپو سلطان کے پیروؤں کو جینے کا حق نہیں، انہیں جنگل میں بھیج دینا چاہئے ۔ مسلم حکمرانوں خاص طور پر محمد بن قاسم ، محمود غزنوی ، مغل بادشاہوں ، ٹیپو سلطان اور نظام حیدرآباد سے نفرت نے ملک دشمنی کا رنگ اختیار کرلیا۔ ہندوستان میں اظہار خیال کی آزادی ہے اور ہر شہری کسی سے محبت اور نفرت کے لئے آزاد ہے ۔ ضروری نہیں کہ ہر کوئی مسلم حکمرانوں کا مخالف ہو۔ کئی ہندو مورخین نے مسلم حکمرانوں کے کارنامے خاص طور پر رعایا پروری اور مذہبی رواداری کا اعتراف کیا ۔ مسلم حکمرانوں پر انگشت نمائی سے قبل تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے ۔ محمد بن قاسم کی حکمرانی اور انصاف کا نتیجہ تھا کہ ہندو قوم ان کے بت بناکر پوجا کرنے لگی تھی۔ مغل حکمرانوں ، بابر ، اکبر اور ہمایوں سے منسوب ناموں کو تبدیل کرنے کی مہم چلانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ یوم جمہوریہ اور یوم آزادی پر قومی پرچم مغلوں کی یادگار لال قلعہ سے لہرایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ہندوستان کی شناخت تاج محل ، قطب مینار اور چارمینار سے ہے ۔ یہ تمام مسلم حکمرانوں کی نشانیاں ہیں۔ ہندوستان کا تصور ان یادگاروں کے بغیر ادھورا ہے۔ مغلوں کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر اور شیر میسور ٹیپو سلطان نے انگریزوں کے خلاف جنگ کی تھی لیکن آج ان کا شمار مخالف ہندو حکمرانوں میں کیا جارہا ہے ۔ بہادر شاہ ظفر نے رنگون کی جیل سے رہائی کے باوجود ہندوستان میں قدم رکھنے سے محض اس لئے انکار کردیا تھا کہ ملک انگریزوں کی غلامی میں ہے اور وہ غلام ملک میں نہیں جائیں گے۔ انگریزوں کے ساتھ ٹیپو سلطان کی لڑائی اور بہادری کے قصے دنیا بھر کے لائبریریز اور میوزیمس کا حصہ ہیں لیکن چند کوتاہ ذہن اور کم نظر بھگوا بریگیڈ پر نفرت کا جنون سوار ہے۔ دنیا میں میزائیل ٹکنالوجی کے موجد ٹیپو سلطان ہیں۔ ان کے بعد ہندوستان کو اے پی جے عبدالکلام کی شکل میں دوسرا مسلم میزائیل مین مل گیا جنہوں نے میزائیل کے کامیاب تجربے کئے تھے۔ آصف سابع نواب میر عثمان علی خاں سے نفرت کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ 1965 ء میں چین کے ساتھ جنگ کے موقع پر اس وقت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری نے نیشنل ڈیفنس فنڈ میں عطیات کی اپیل کی تھی۔ نظام حیدرآباد نے 5000 کیلو گرام سونے کا عطیہ دیا تھا جس کی مالیت آج 1500 کروڑ سے زیادہ ہے۔ دنیا کی تاریخ میں یہ انفرادی طور پر سب سے بڑا عطیہ ہے۔ ’’پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں‘‘۔
ملک کے نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہر ذی شعور اور سیکولر شہری کو ٹیپو سلطان اور عثمان علی خاں جیسے حکمرانوں پر فخر ہے، جنہوں نے ملک کا سودا نہیں کیا۔ ایک نے ملک پر جان نچھاور کردی تو دوسرے نے مصیبت کی گھڑی میں اپنے خزانوں کو ملک کی حفاظت پر نچھاور کردیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی وطن پرستی پر سوال وہ اٹھا رہے ہیں جنہوں نے وطن کو بیج دیا۔ جن کے اجداد نے انگریزوں سے معافی مانگی تھی۔ مسلمانوں کو جدوجہد آزادی کے مجاہدین محمد علی برادران ، مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا محمد علی جوہر کی وراثت پر فخر اور ناز ہے جبکہ ساورکر اور گوڈسے کے جانشین اور وارث مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ انگریزوں سے معافی مانگنے والے اور گاندھی جی کے قاتل کو قومی ہیرو کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ ہمیں مولانا ابوالکلام آزاد پر فخر ہے جنہوں نے تادم آخر پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ مسلمانوں کو محمد علی جناح سے جوڑنے والے بھول گئے کہ ان کے استاد ایل کے اڈوانی نے پاکستان جاکر جناح کی قبر پر حاضری دی اور انہیں سیکولر قرار دیا تھا۔ ٹیپو سلطان سے نفرت کا اظہار کرنے والے نلین کمار کو ہمارا مشورہ ہے کہ زیادہ ٹیپو کا نام نہ لیں ورنہ وہ خواب میں آجائیں تو بستر گیلا ہوجائے گا یا پھر سانس بند ہوجائے گی۔ مخالفین ٹیپو میں ہمت ہو تو ان کی مزار کے قریب جاکر دکھائیں۔ جس طرح انگریز ٹیپو کی لاش کے قریب جانے سے گھبرا رہے تھے ، آج بھی ان کی مزار کے پاس جانے سے زعفرانی اور بھگوا بریگیڈ خوف کھاتا ہے۔ بھڑکاؤ بھاشن اور بیانات پر وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی خاموشی معنیٰ خیز ہے۔ ان کی خاموشی دراصل نیم رضامندی کا ثبوت ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں نفرت کے ماحول کو فروغ دیا جائے تاکہ بی جے پی کو 2024 ء میں کامیابی حاصل ہو۔ آسام میں مسلمانوں کی شادیوں پر اعتراض کرتے ہوئے 3000 سے زائد گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں لیکن ہائی کورٹ نے حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے ضمانت منظور کی۔ مسلمان ملک میں دوسری بڑی اکثریت ہیں اور آبادی کے اعتبار سے اگر کسی مقررہ دن اور وقت پر احتجاج کا فیصلہ کرلیں تو ملک کے حالات بدل جائیں گے۔ تشدد اور نعرہ بازی کے بجائے 20 کروڑ مسلمان خاموشی سے سڑک پر آجائیں تو حکومت ہل جائے گی لیکن افسوس مسلمانوں میں قیادت کا فقدان ہے۔ ایمانی حرارت رکھنے والے علماء اور مذہبی شخصیتوںکی کمی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف مہم اور مظالم کو روکنے کیلئے مولانا ابوالکلام آزاد، بدرالدجیٰ، بنات والا، سلیمان سیٹھ ، محمد اسمعیل ، علی میاں اور بہادر یار جنگ جیسی قیادت کی ضرورت ہے۔ علامہ اقبال کا یہ شعر مسلمانوں کے حوصلوں کو جلا بخشے گا ؎
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کرچکا ہے تو امتحاں ہمارا