بافیض خانوادۂ شرفی چمن کے نامور سپوت حضرت مولانا ڈاکٹر سید محمد حمیدالدین قادری شرفی کا سانحہ ارتحال

   

حیدرآباد فرخندہ بنیاد ہمیشہ علمی اور روحانی مرکز رہا ہے ۔ مختلف گوشوں سے عظیم پیشوا اس سرزمین کا رُخ کئے اور اس کو مستقل اپنا مسکن بنالئے اس طرح متعدد روحانی خانوادے حیدرآباد کی زینت بن گئے اور ان کے فیض سے سلطنت اور مخلوق کثیر فیضیاب ہوتی رہی ۔ انہی عظیم پیشواؤں میں ایک روحانی ذات گرامی حضرت سید شاہ طاہر رضوی قادری المتوکلؒ کی ہے جو جلال الدین محمد اکبر کے عہد میں بغداد سے کرنول تشریف لائے اور وہیں مقیم رہے ۔ آپ حسینی سادات سے ہیں ۔ آپ کا سلسلۂ نسب سیدنا علی موسیٰ رضا رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ہوتا ہوا سیدالشھداء امام عالی مقام سیدنا حسین بن علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہما تک پہنچتا ہے ۔ آپ کا نسبی اور روحانی سلسلہ پھیلتا گیا ۔ آپ کی اولاد امجاد میں حضرت سید شاہ شرف الدین حسینی رضوی قادری شاہ شرفی قدس سرہ العزیز ہے خانوادۂ ’’شرفی چمن ‘‘ کے موقوعہ سبزی منڈی حیدرآباد کو غیرمعمولی مقبولیت ہوئی ۔ یہ ایک بابرکت اور بافیض خانوادہ ہے جس پر قادری پھر چشتی رنگ غالب رہا ہے ۔ نیز سلسلہ نقشبندیہ و سلسلہ سہروردیہ کا فیض بھی عام ہوا ۔
یہ سلسلہ عالیہ قادریہ شہنشاہ ولایت امام المشارق و المغارب سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے ہوتا ہوا سیدالشھداء امام عالی مقام سے آئمہ اہلبیت اطہار سے سیدنا امام علی موسیٰ رضا رضی اﷲ عنہ سے حضرت معروف کرخیؒ ، حضرت سری سقطیؒ ، حضرت جنید بغدادیؒ ، حضرت ابوبکر شبلیؒ سے ہوتے ہوئے حضرت سلطان الاولیاء غوث الثقلین پیرانِ پیر قدس سرہ العزیز سے ہوتے ہوئے شرفی چمن کے خانوداہ کو پہنچتا ہے ۔ اس طرح سلسلہ سہروردیہ میں بہ یک وقت متعدد نسبتیں جمع ہوکر بڑی جامعیت پیدا ہوتی ہے ۔ بہرکیف اس خانوادہ میں متعدد قسم کی بزرگی جمع ہوئی ۔
اس خانوداہ کی ایک مرکزی شخصیت تاج العرفاء سید شاہ سیف الدین حسینی رضوی قادری شرفی کی گزری ہے ۔ حیدرآباد دکن کا ایک بڑا حلقہ آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوکر بامراد ہوا ۔ انہی خوش نصیب لوگوں میں میرے اور میرے والد ماجد کے استاذ گرامی شیخ الحفاظ حضرت مولانا ڈاکٹر حافظ و قاری شیخ احمد محی الدین شرفی قادری مدظلہ العالی کی ہے ۔ آپ کا سارا خاندان شرفی چمن سے وابستہ رہا ۔ ایک عرصہ دراز تک شرفی چمن سبزی منڈی کی مسجد میں یک شبی شبینہ سنایا کرتی تھے تو شبینے میں شرکت کی بناء بچپن سے ہی شرفی چمن سے ایک خاص اُنسیت اور تعلق رہا ۔ استاذ گرامی کے خانوداہ شرفی چمن کے اکابرین سے گہری عقیدت کی بناء اس خاکسار کو حضرت سید شاہ محمد علیم الدین قادری شرفیؒ اور حضرت سید شاہ مدنی شرفی قادریؒ اور آپ کے برادران سے ملاقات کرنے اور نیاز حاصل کرنے کا شرف ملا ۔ ان بزرگوں کی معصومیت ، بھولا پن ، سادگی اور دنیا سے لاتعلقی نے احقر کے قلب و ذہن پر عقیدت و محبت کے انمٹ نقوش ثبت کردیئے ۔
خانوادہ شرفی چمن کے نامور بزرگ تاج العرفاء سید شاہ سیف الدین حسینی رضوی قادری شرفی کے گھر ۱۰ ؍ اگسٹ ۱۹۵۴؁ ء کو ایک بلند اقبال سعادت اطوار فرزند کی ولادت ہوئی جن کا نام نامی سید محمد حمیدالدین شرفی رکھا گیا ۔ والد بزرگوار نے فرزند دلبند کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی ۔ فرزند ارجمند جستجو اور ذوق و طلب کے بلند صفات سے آراستہ تھے ۔ حضرت مفتی عبدالحمید شیخ الجامعہ نظامیہؒ ، حضرت مولانا حاجی منیرالدینؒ خطیب مکہ مسجد ، جلالۃ العلم حضرت رشید پاشاہ قبلہؒ جیسے اکابر وقت سے استفادہ کیا اور اپنے علمی سفر کو جاری رکھتے ہوئے گلبرگہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی تکمیل کی اور ’’اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں روزنامہ سیاست حیدرآباد کا حصہ ‘‘ کے موضوع پر تین ہزار صفحات پر ایک مبسوط وقیع مقالہ پیش کیا ۔ اس طرح علمی و ادبی دنیا میں اپنی شناخت قائم کی ۔
آپ کے خانوداہ میں آپ غیرمعمولی حرکیاتی اور فعال بن کر اُبھرے ۔ معاش کے لئے تدریس کے پیشہ کو اختیار کیا ۔ وعظ و نصیحت کے لئے خطابت کو اختیار کیا تو آپ نے فن خطابت کو نئی جہت دی اور بحیثیت خطیب ایسی شہرت ہوئی کہ حیدرآباد کا کوئی مرکزی جلسہ آپ کی تقریر کے بغیر کامیاب متصور نہیں ہوتا ۔
حیدرآباد میں حضرت نظام الدین مغربی مرحوم کی تاریخ اسلام پر بڑے جامع لکچرس ہوا کرتے ۔ آپ کے انتقال کے بعد ایک خلاء پیدا ہوا ۔ ۱۹۹۱؁ء میں آپ نے اسلامک ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک ) قائم کی ۔ جس کے تحت مالا کنٹہ مسجد میں ہر اتوار کو پابندی سے زائد سیرت طیبہ ، تاریخ صحابہ اور تاریخ اسلام پر لکچرس دیئے ۔
نود کے دہے میں حضرت شرفی صاحب قبلہ علیہ الرحمہ کی سرگرمیاں شباب پر تھیں۔ آپ نے ۱۹۹۴؁ ء میں شاید باغ عامہ میں حفظ کے مقابلہ کا اہتمام کیا تھا جس میں احقر کو انعام اول سے نوازا گیا تھا ۔
یہی وہ دور تھا جس میں آپ نے نہ صرف مشائخ حضرات کو متحد کیا تھا بلکہ روحانی خانوادوں کے علمی و تحقیقی کارناموں کو منظرعام پر لانے کے لئے پہل کی تھی ۔ ’’صوفی کانفرنس ‘‘کا انعقاد بڑی کامیابی کے ساتھ عمل میں آیا اور علمی ذخیرہ بھی منظرعام پر آیا تھا ۔ آپ ایک عرصہ تک جامعہ نظامیہ کے رکن انتظامی رہے اور بسا اوقات کارگزار امیر جامعہ کی حیثیت سے آپ نے خدمات انجام دی ہیں۔ رویت ہلال کمیٹی کے آپ رکن اور کنوینر رہے ۔ عرصہ دراز تک یہ خدمت آپ نے انجام دی۔ آپ سالہا سال تک روزنامہ سیاست کے مذہبی صفحہ کے ذمہ دار رہے ۔ آپ ہی کی نگرانی میں مذہبی ایڈیشن اور خصوصی سپلیمنٹس عرصۂ دراز تک شائع ہوتے رہے ۔ آپ کی یہ علمی و دینی و اصلاحی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی ۔ آپ کی شخصیت میں بڑا تنوع تھا ۔ آپ باوقار ، باتمکنت و پرجلال و نازک الطبع تھے ۔ آپ بلند حوصلہ ، منظم ، جہدمسلسل کے مالک تھے ۔ بڑی دقت سے منوبہ بندی فرماتے ۔ پابندی وقت کا حد درجہ اہتمام فرماتے ۔ بڑی خوش اسلوبی سے آپ نے اپنی اولاد کی تربیت کی اور ان کو وعظ و نصیحت کے لئے تیار کیا ، باضابطہ نظام العمل تیار کرکے اپنے بزرگوں کے طریقے پر ان کو گامزن کردیا۔
آپ قادرالکلام شاعر تھے ۔ اور شعر و شاعری میں بھی آپ کا ایک خاص رنگ تھا جو دوسروں سے ممتاز تھا ۔ صحابہ کرام پر اس قدر تفصیل سے حیدرآباد میں عصر حاضر میں آپ کے علاوہ کسی شخصیت نےگفتگو نہیں کی۔ تاریخ اسلام کو نئی نسل تک پہنچانے اور اس کو اخبار کے ذریعہ باضابطہ عام کرنے میں آپ کی خدمات قابل تقلید ہیں۔ تین دہوں تک حیدرآباد کے اُفق پر چھائے رہے پھر دھیرے دھیرے خود کو محدود کرتے گئے اور آخری دس بارہ سال نہایت گوشہ نشینی اور خموشی میں بسر کرتے ہوئے داعی اجل کو لبیک کہا ۔ اﷲ تعالیٰ آپ کی قبر کو نور سے بھردے ۔ آپ کے پسماندگان کو ہمت اور صبر عطا فرمائے اور آپ کے مشن کو آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ طہٰ و یٰسین