برطانوی شاہی خاندان کا غرور ہیری نے کیا چکناچور

   

پروین کمال
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ جدید دور میں عالمی مدوجزر کے نتیجے میں خواہ سیاسی ہوکہ عوامی یا معاشرتی بہت ساری حیران کن تبدیلیاں ظاہر ہوئی ہیں۔ اب اسے آپ وقت کی بولتی روش کہیں یا جدیدیت کی طرف مائل ذہنیت لیکن سچائی یہی ہے کہ معاشرے کے خدوخال بدل چکے ہیں۔ برطانیہ کے شاہی خاندان میں ششدر کردینے والے جو حالیہ حالات ہوئے ہیں، وہ دنیا کے ہر خطے میں رہنے والے جان چکے ہیں۔ یہ واقعہ ملکہ برطانیہ کے پوتے شہزادہ ہیری کی نجی زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ ہیری نے کیسے خاندان کے رسم و رواج اور جاہ و حشم کو نظرانداز کرکے اپنے فیصلے کو آگے بڑھانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ حالانکہ برطانوی روایات ایک تناور درخت کی طرح اٹل ہیں۔ خاندان کے ہر فرد کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ شاہی روایات کی پابندی کرے اور ایسا صدیوں سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ اس خاندان میں وہی داخل ہوسکتا ہے جو ان کا ہم منصب ہو۔ رنگ و نسل، آداب و تہذیب جو اس خاندان کے عین مطابق ہو۔ انہی کو خاندان میں شامل کرنے کی روایت ہمیشہ سے چلی آرہی ہے۔ گویا مخمل میں کچھ اور نہیں بلکہ مخمل ہی لگانے کا طریقہ اس خاندان میں رائج ہے۔ اتنے سخت قوانین کو خود اس خاندان کے ایک فرد شہزادہ ہیری نے توڑنے کی ہمت کی ہے اور پورے شاہی خاندان سے اکیلے ہی مقابلہ کررہے ہیں اور ایک امریکی سیاہ فام فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والی خاتون میگھن سے شادی کرلی۔ شاہی خاندان نے یہ کڑوا گھونٹ گلے سے نیچے اُتار تو لیا لیکن اس کے مضر اثرات سے یہ جوڑا بچ نہ سکا۔ میگھن رنگ و نسل اور بلندی اور پستی کے امتیاز کا شکار ہوگئیں اور شاہانہ وقار اور عام زندگی کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ انہیں اور ان کے نومولود بچے کو سیاہ فام ہونے کے طعنے سننے پڑے۔ عالمی سطح پر تو یہاں تک کہا جارہا تھا کہ یہ رشتہ بہت کامیاب ثابت رہے گا، کیونکہ یہ دو متضاد نسلوں کی بنیاد پر بنا ہے۔ یہ دنیا بھر میں بہت بڑی مثال بن کر ابھرے گا اور پھر یہ بھی کہ شاہی خاندان میں ایسا رشتہ پہلی بار ہونے کے باوجود ایوان شاہی نے بخوشی قبول کیا۔ پھر اس طوفان کی وجہ کیا تھا۔ ہیری کا بیان ہے کہ میڈیا کی طرف سے کچھ زیادہ ہی مداخلت کی گئی۔ انہوں نے میگھن کے ماضی کے بہت سارے اوراق اُلٹ دیئے۔ تب شاہی خاندان میں بہت زیادہ کھنچاؤ پیدا ہوگیا۔ اب ان کے پاس صرف ایک ہی راستہ تھا کہ شاہی محل کو الوداع کہہ دیں۔ طئے شدہ منصوبے کے تحت انہوں نے گزشتہ سال شاہی خاندان سے علیحدگی حاصل کرلی اور امریکہ منتقل ہوگئے۔ ہیری کو اس بات کا غم نہیں کہ اب وہ اپنے نام کے ساتھ شاہی القاب استعمال کرنے کے مستحق نہیں رہے۔ ان کو ملنے والی شاہی منصب بھی روک دی گئی ہے، البتہ ان کے ساتھ یہ رعایت ضرور رکھی گئی ہے کہ شاہی تخت کی جانشینی کی فہرست میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ایک بادشاہ نے اپنی محبت کے ہاتھوں مجبور ہوکر تخت و تاج ٹھکرا دیا۔ یہ پرنس ایڈورڈ ہشتم تھے جو اپنے والد کی وفات کے بعد تخت نشین ہوئے تھے لیکن جب انہوں نے ایک امریکی خاتون سے عشق اور شادی کی بات برطانوی پارلیمنٹ میں رکھی تو اس شادی کو قبول کرنے سے صاف انکار کردیا گیا اور یوں شہزادہ ایڈورڈ اپنے عشق کی خاطر صرف گیارہ مہینوں میں تخت و تاج سے دستبردار ہوگئے اور اس خاتون سے اس کے تیسرے شوہر کی حیثیت سے شادی کرلی اور بقیہ زندگی گوشہ گمنامیں گزار دی۔ آج ہیری بھی اپنے اجداد کے نقش قدم پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ فیصلہ ان کی شخصیت کو مزید نمایاں کررہا ہے۔ ان کی تائید میں بہت سارے سماجی کارکن آواز اٹھانا چاہتے ہیں، جن میں گنگ مارٹن لوتھر کی بیٹی بھی شامل ہیں۔ مارٹن لوتھر اس حوالے سے ایک اونچی شخصیت مانے جاتے ہیں کہ وہ سیاہ فام طبقے کے حقوق کیلئے لڑتے ہوئے گولی کا نشانہ بنے تھے۔ ان کے منہ سے نکلا ہوا ایک نعرہ “I have a Dream” آج بھی حق و انصاف کی جنگ لڑنے والوں کیلئے مشعل راہ بنا ہوا ہے۔ ملکہ برطانیہ جو اس سلطنت اور شاہی خاندان کی سربراہ ہیں۔ ان کا تعلق ازل سے شاہی خاندان سے ہے۔ وہ ہیروں کی ملکہ کہلاتی ہیں۔ ان کی شاہی ذہنیت کی نزاکت کی انتہا یہ کہ جب وہ کھانے کی میز پر آتی ہیں تو کھانا پیش کرنے تک بٹلر سانس روکے رکھنے کے پابند ہیں اور جب سے ایک گلدستہ لئے ہوئے ان کے ہاتھ میں کانٹا چبھ گیا تھا، تب سے وہ کسی سے پھول نہیں لیتی اور اپنی عادت کے مطابق سفید دستانے پہنے بغیر وہ کسی سے ہاتھ نہیں ملاتیں۔ خواہ پاپائے روم جیسی مقدس ہستی ہی کیوں نہ ہوں۔ ایک بات اور بھی جو شریک حیات پرنس فلپ کی ذات سے وابستہ ہے۔ 1952ء میں جب ملکہ کے والد کی وفات کے بعد انہیں شاہی تاج پہنایا گیا۔ تب سے ملکہ کے شریک حیات ان کے ہم پلہ نہیں رہے اور ان کی کرسی ہمشہ ملکہ کی تخت نما کرسی سے مختلف ہوتی تھی اور ملکہ کی کرسی سے پیچھے رکھی جاتی تھی۔ تقریبات کے دوران بھی وہ اپنی شریک حیات سے دو قدم پیچھے رہنے کے پابند تھے لیکن اس فرمان شاہی پر پرنس فلپ کو کبھی اعتراض نہیں ہوا بلکہ وہ خندۂ پیشانی سے پورا کرتے تھے۔ شاہی محل میں رہنے والے تمام افراد پر یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ ان تمام قاعدے قانون کی پابندی کریں لیکن کسی اوسط درجہ کے ماحول میں پرورش پانے والوں کیلئے بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا دوراہا ہے جو میلوں آگے جاکر بھی ایک دوسرے میں ضم نہیں ہوسکتا۔ ملکہ برطانیہ نے جب آنکھیں کھولیں تو اپنے اطراف ہیرے جواہرات کے انبار دیکھے جس کا تخمینہ آج تک کوئی کر نہ سکا۔ یہ بات نہیں کہ ان کی وافر دولت سے مرعوب ہوکر ایسا لکھا جارہا ہے بلکہ میں تو صرف حقیقت کی نقاب کشائی کرنا چاہتی ہوں کہ ایک دولت اور شاہانہ ذہنیت رکھنے والی خاتون کیا عام انسانوں سے ایڈجیسٹ کرپائیں گی؟ یہی وجوہات تھیں کہ ہیری کو محل چھوڑنا ضروری تھا حالانکہ آج کے اس ترقی یافتہ جدید دور میں کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ طبقاتی تفریق کا وجود اب باقی نہیں رہا۔ دنیا کی ساری مخلوق ایک ہے۔ لیکن یہ تو صرف کہنے کی باتیں ہیں۔ اس پر عمل کوئی نہیں کرسکتا جو ازل سے تھا وہ آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا۔ صرف اظہار کے طریقے بدل گئے ہیں۔ ہیری نے یہ قدم اُٹھاکر انسانیت کو بہت اونچائی پر پہنچا دیا ہے۔ قابل قدر ہے ان کا یہ عمل اور لائق تحسین بھی۔