بعد از انبیاء افضل البشرحضرت سیدنا ابوبکر صدیق ؓ

   

گروہ انبیاء علیہم السلام میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ابوالانبیاء ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ کیونکہ آپ کے بعد نبوت و رسالت آپ ہی کی اولاد میں رہی ۔ آپ کی اولاد امجاد بنواسمٰعیل اور بنو اسرائیل میں منقسم ہوگئی ۔ حضرت اسمٰعیل اور حضرت اسحٰق علیہ السلام کے بعد متواتر تمام انبیاء حضرت اسحٰق کی اولاد میں ہوئے ۔ بنواسمٰعیل میں صرف ایک ہی نبی ظاہر ہوئے اور وہ افضل الانبیاء خاتم النبیین محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تاہم بنواسمٰعیل میں طریقۂ ابراہیمی پر عمل نسل درنسل مضبوطی سے چلا آتا رہا ۔ امتدادِ زمانہ اور نفس امارہ کے غلبہ کی بناء متعدد خرابیاں ان میں وقفہ وقفہ سے داخل ہوتی گئیں حتی کہ نبی اکرم ﷺ کی بعثت مبارکہ سے تقریباً تین صدی قبل ’’عمرو بن لحی‘‘ کے ذریعہ سے ان میں بت پرستی داخل ہوگئی اور وہ دھیرے دھیرے مشرکانہ رسوم و رواج کا شکار ہوگئے اور بتوں کی پرستش کرنے لگے ۔ اس کے باوصف مکہ کے مشرکین کا دعویٰ تھا کہ وہ ’’حنیف‘‘ ہیں اور ملت ابراہیمی کے پیروکار ہیں ۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ اپنی مایہ ناز تصنیف ’’الفوز الکبیرفی اصول التفسیر‘‘ میں زمانہ جاہلیت کے دوران ملت ابراہیمی کے مخصوص شعائر و آثار پر مشرکین مکہ کے عمل درآمد کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ ان میں بیت اللہ کا حج کرنا ، نماز میں کعبہ کی طرف رخ کرنا موجود تھا ۔ وہ جنابت کا غسل کیا کرتے ، ختنہ کرتے اور تمام فطری عادتوں مثلاً مونچھ تراشنا ، داڑھی بڑھانا ، ناخن کترنا ، بغل اور زیر ناف بال صاف کرنا ، مسواک کرنا وغیرہ ان میں عام تھا ، وہ حرمت والے مہینے ذوالقعدہ ، ذوالحجہ ، محرم اور رجب کی حرمت کا لحاظ رکھتے ۔ مسجد حرام کی تعظیم بجا لاتے ۔ نیز ان میں نسبی اور رضاعی رشتوں کی حرمت پائی جاتی تھی ۔ اسی طرح وہ جانوروں کو ذبح کرکے کھاتے ۔ خاص طور سے ایام حج میں قربانی کیا کرتے ۔ علاوہ ازیں ملت ابراہیمی کے شعائر میں سے وہ وضو ، نماز اور طلوع شمس سے غروب آفتاب تک روزہ کا اہتمام کرتے۔ یتیموں اور مسکینوں کی امداد کرتے ، حق کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد کرتے ، صلہ رحمی اور عزیز و اقارب سے حسن سلوک ملت ابراہیمی کا حصہ تھا ۔ نیز قتل و خون ، چوری ، زنا ، سود اور غصب کرنے کی حرمت ملت ابراہیمی کی تعلیمات کا جز تھیں ۔ گرچہ ان آثار و شعائر کو مشرکین کی اکثریت فراموش کرچکی تھی ۔ تاہم ان میں بعض ایسے بندگان خدا بھی تھے جو ایسے پرآشوب دور میں بھی ملت ابراہیمی کے تمام اصولوں پر صدفیصد کار بند تھے ۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ’’ثَانِيَ اثْنَيْنِ‘‘ کے بمصداق جاہلیت کی تمام خرافات اور برائیوں سے محفوظ ملت ابراہیمی پر کماحقہ کاربند تھے اور اس دور میں ساری دنیا کے لئے ملت ابراہیمی کے عظیم پیشوا اور رہنما نبی اکرم ﷺ ہی تھے ۔
چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے پہلی وحی کے نزول کے بعد حضرت بی بی خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے خدشات کا اظہار کیا تو حضرت خدیجۃؓنے آپ کو تسلی دیتے ہوئے کہا : بخدا ! اللہ آپ کو ہرگز نامراد نہیں کرے گا کیونکہ آپ تو صلہ رحمی کرنے والے ، صداقت شعار ، راست باز ، دوسروں کا بار اٹھانے والے ، محتاجوں کی مدد کرنے والے مہمان نواز اور دوسروں کے مددگار ہیں ۔ (بخاری شریف)اور جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہجرت کرکے جارہے تھے اور قوم کے سردار ابن الدغنہ سے ملاقات ہوتی ہے تو وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعینہ انہی صفات کا ذکر کرنا ہے جو حضرت خدیجۃ ؓ نے نبی اکرم ﷺ کی شان میں فرمایا تھا ۔ چنانچہ وہ کہا ہے : بلاشبہ آپ تو خاندان قبیلہ کی زینت ہیں ، مصیبتوں کے وقت مدد کرنے والے ہیں ، محتاجوں کی امداد کرنے والے اور بھلائی کے کام کرنے والے ہیں ، وہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو امان دے کر واپس مکہ ساتھ آتا ہے اور کفار قریش کے سامنے اعلان کرتا ہے کہ ابوبکر جیسے لوگ چلے جائیں گے یا نکالے جائیں گے ۔ تم ایسے شخص کو نکال رہے ہو جو غریبوں کی مدد کرتا ہے ۔ صلہ رحمی کرتا ہے ۔ دوسروں کے بوجھ اٹھاتا ہے ۔ مہمان نوازی کرتا ہے۔ حق کے مصائب پر مدد کرتاہے ۔ چنانچہ قریش حضرت ابوبکر صدیق ؓکی کسی ایک خوبی کا انکار نہیں کرسکے ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓنے زمانہ جاہلیت میں نہایت پاکیزہ زندگی گزاری ، پاکیزہ افراد کی صف اول میں آپ کا شمار ہوتا ۔ کبھی آپ نے شراب کو ہاتھ نہیں لگایا بلکہ آپ نے خود پر شراب کو حرام کرلیا تھا ۔ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ نے زمانہ جاہلیت اور اسلام میں کبھی بھی شراب نوشی نہیں کی ۔ صحابہ کرام کے مجمع میں آپ سے پوچھا گیا کہ آپ نے زمانہ جاہلیت میں شراب پی ہے تو آپ نے فرمایا : ’’اعوذ باللہ‘‘ اللہ کی پناہ۔ سوال کیا گیا کہ آپ نے شراب کیوں نہیں پی تو فرمایا میں اپنی عزت کی حفاظت کرتا اور اپنی مروءت کا پاس رکھتا ۔ کیونکہ جو شراب نوشی کرتا ہے وہ اپنی عزت ، آبرو اور مروءت کو کھودیتا ہے ۔ جب اس کی اطلاع نبی اکرم ﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓکی تصدیق فرمائی ۔ (تاریخ الخلفاء ص : ۲۸ )
اس طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی زندگی میں کبھی بھی کسی بت کے سامنے نہیں جھکے اور آپ نے اپنا قصہ بیان فرمایا کہ جب وہ بلوغیت کی عمر کو پہنچے تو آپ کے والد ابو قحافہ آپ کو ایسے مقام لے گئے جہاں کئی بت تھے اور کہا کہ یہ تمہارے خدا ہیں ۔ مجھے وہاں چھوڑکر وہ چلے گئے میں نے کہا : میں بھوکا ہوں مجھ کو کھانا کھلاؤ تو اس نے میرا جواب نہیں دیا ، میں نے کہا میرے پاس کپڑے نہیں ، مجھے کپڑے چاہئیے کوئی جواب نہیں آیا تو میں نے اس پر ایک بڑا پتھر ڈالدیا تو وہ اوندھے منھ گرگیا ۔ (تاریخ الخلفاء)
تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کو شرف صحبت میں امتیاز حاصل ہے کہ آپ زمانہ جاہلیت میں بھی حضور پاک ﷺ کے مصاحب رہے اور مردوں میں سب سے پہلے ایمان لے آئے اور اسلام کے بعد سے وصال تک سفر و حضر میں ہروقت حضور پاک ﷺ کے ساتھ رہے ۔ اس قدر صحبت کسی صحابی کو حاصل نہیں ہوئی ۔ مخفی مبادکہ قرآن مجید میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے صرف آپ کی ذات گرامی کو ’’صاحب‘‘ کے لفظ سے یاد فرمایا ۔ نیز قرآن مجید میں آپ کیلئے ’’ثَانِيَ اثْنَيْنِ‘‘ کے ذریعہ آپ کی فضیلت و اہمیت بتائی گئی چنانچہ آپ غار ثور میں ہجرت کے وقت نہ صرف آپ ’’ ثَانِيَ اثْنَيْنِ‘‘ (دو میں سے دوسرے) ہیں بلکہ اسلام لانے کے بعد دوسروں میں اسلام کی دعوت عام کرنے میں بھی آپ ’’ ثَانِيَ اثْنَيْنِ‘‘ ہیں یعنی حضور پاکﷺ کے بعد آپ ہی اسلام کے دوسرے داعی ہیں ۔ چنانچہ ابتدائی ایام میں آپ کی دعوت و تبلیغ پر کئی ایک جلیل القدر ہستیاں دامن اسلام سے وابستہ ہوئیں جن میں حضرت عثمان غنیؓ ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ ، حضرت علمہ بن عبید اللہ ، حضرت زبیر بن العوام ، حضرت سعد بن ابی وقاص ، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح جیسے قد آور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم قابل ذکر ہیں ۔
اسی طرح اسلام کے ابتدائی صبر آزما حالات میں اسلام اور مسلمانوں کے دوسرے سب سے بڑے ہمنوا ، ہمدرد ، غمخوار اور ناصرومحافظ حضرت ابوبکر صدیقؓ رہے ۔ اس طرح جب کفار مکہ نے اسلام کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کے لئے نعوذ باللہ حضور پاک ﷺ کو شہید کرنے کا ناپاک منصوبہ بنایا تو نبی اکرم ﷺ کو حفاظت کے ساتھ مکہ سے مدینہ منورہ پہنچانے اور اس کے لئے کامیاب منصوبہ بندی کرنے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حکمت عملی مثالی ہے کہ عرب کے مشہور زمانہ عقلمند و دانا اس حکمت عملی کے سامنے عاجز و مجبورہوگئے ۔