بلدی انتخابات اور مسلم ووٹ

   

کس کو خبر تھی کس کو یقین تھا ایسے بھی دن آئیں گے
جینا بھی مشکل ہوگا ، اور مرنے بھی نہ پائیں گے
بلدی انتخابات اور مسلم ووٹ
گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے انتخابات یکم ڈسمبر کو مقرر ہیں۔ اس مرتبہ یہ بلدی انتخابات شہر حیدرآباد کے عوام کے لئے نہایت ہی اہم تصور کئے جارہے ہیں۔ کیوں کہ انتخابی مقابلہ حکمراں پارٹی ٹی آر ایس اور قومی حکمراں پارٹی بی جے پی کے درمیان راست طور پر ہونے جارہا ہے۔ حیدرآباد کے سیکولر مزاج اور سیکولر سوچ کے حامل شہریوں کو یہ فیصلہ کرنے کا وقت آگیا ہے کہ آیا وہ اپنے شہر کو پھر ایک بار بدامنی، غارت گری، فرقہ واری اور مذہبی کارڈ کھیلنے میں دلچسپی رکھنے والوں کو شہر پر قبضہ کرنے کا موقع دیں گے یا نہیں۔ اگر عوام نے شہر حیدرآباد کو ترقی و خوشحال بنانے کی فکر صحیح کا اظہار کیا تو پھر ان کے سامنے حکمراں ٹی آر ایس ہی واحد پارٹی ہوگی جو عوام کے خوابوں کو پورا کرنے کے دعوؤں پر عمل کرے گی۔ لیکن اس کی کامیابی اس وقت ممکن ہے جب 80 لاکھ رائے دہندے منظم طریقہ سے ووٹ دینے کا فیصلہ کریں۔ عموماً بلدی انتخابات میں رائے دہی کا فیصد کہیں کم کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ اگر یہ انتخابات بھی بہار کے حالیہ اسمبلی انتخابات کی طرح ثابت ہوں تو ووٹ کاٹ کر بی جے پی کو مضبوط بنانے والی مقامی جماعت حیدرآباد کا میئر بی جے پی کے حوالے کرنے کا بندوبست کرے گی۔ اس لئے شہریوں کو بہار انتخابات کے نتائج کو مدنظر رکھ کر ووٹ ڈالنا ہوگا۔ بہار میں مسلمانوں کے ووٹوں کو منقسم کرتے ہوئے بی جے پی کو راست فائدہ پہنچایا گیا۔ اسی طرز پر حیدرآباد کے بلدی انتخابات میں بھی کام کیا گیا تو پھر ٹی آر ایس کی آنکھوں کے سامنے بلدی نتائج میں اُلٹ پلٹ کی جائے گی۔ بہار میں این ڈی اے نے 243 رکنی اسمبلی میں اکثریت کے ساتھ 125 حلقوں پر کامیاب ہوکر دوبارہ حکومت بنائی لیکن این ڈی اے کی اس ٹیم میں کوئی مسلم لیڈر نہیں ہے۔ بی جے پی جہاں ہوگی وہاں مسلم امیدوار کا نام و نشان نہیں ہوگا۔ آر ایس ایس اور ہندوتوا ایجنڈہ اس قدر طاقتور بنتا جارہا ہے کہ ملک اور اس کی ہر ریاست کو زہر آلود بناکر ووٹ بٹورنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بہار میں 17 ملین مسلمان ہونے کے باوجود بہار کی حکومت میں ایک بھی مسلم وزیر کو نمائندگی نہیں دی گئی، یہ ایک المیہ ہے۔ شہر حیدرآباد بھی مسلم اکثریتی آباد والا شہر ہے۔ یہاں کے عوام کا ووٹ ہی یہ فیصلہ کرے گا کہ بلدی انتخابات میں سیکولر پارٹیوں کو کامیابی ملے گی یا فرقہ پرستوں کی سازشوں میں کامیابی ملے گی۔ اترپردیش کے 403 رکنی اسمبلی میں بی جے پی نے 312 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی لیکن یوپی حکومت میں ایک بھی وزیر مسلم نہیں ہے جبکہ یو پی میں 40 ملین مسلمان مقیم ہیں۔ یوپی کی پوری اسمبلی میں صرف 24 مسلم ارکان اسمبلی ہیں۔ یہ مسلم نمائندگی کو صفر کردینے کی سازش کا ہی حصہ ہے۔ اب سازش کا رُخ شہر حیدرآباد کی طرف ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ بی جے پی نے جن جن ریاستوں میں اپنا فرقہ وارانہ فارمولہ اختیار کیا ہے وہاں اسے کامیابی دلانے کے لئے مسلمانوں کے ووٹوں کو بُری طرح پھوٹ کا شکار بنادیا گیا۔ حیدرآباد کے بلدی انتخابات میں 150 بلدی حلقے ہیں ان میں سے نصف حلقوں میں مسلم اکثریتی آبادی ہے۔ اگر یہاں مسلمانوں کے ووٹ کاٹنے کی سازش کی گئی تو پھر راست فائدہ بی جے پی کو ہی ہوگا۔ حیدرآباد کے مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ فرقہ پرست پارٹیوں کی سازشوں کا شکار ہوتے آرہے ہیں۔ غیر بی جے پی پارٹیاں مسلم امیدواروں کو ٹکٹ صرف اس غرض سے دے رہی ہیں تاکہ مسلمانوں کے ووٹ تقسیم ہوجائیں تو بی جے پی کو ملنے والے ووٹ ہی اس کی کامیابی کی ضمانت ہوں گے۔ مسلمانوں نے ہمیشہ اپنے ووٹ کی قدر نہیں کی یا پارٹیوں نے ان کے ووٹوں کو عزت نہیں بخشی نتیجہ میں ہر انتخاب کے بعد مسلمانوں کا ہی استحصال ہوتا گیا۔ ان کا ووٹ لے کر آج دولت کی چادر لپٹے گھومنے والے قائدین درپردہ طور پر بی جے پی کی کا سیاسی سایہ بن کر ساتھ دے رہے ہیں۔ حیدرآباد کے مسلمانوں کی بدقسمتی کا عالم یہ ہے کہ ہر انتخابات میں اندھی تائید کرکے ووٹ دینے کے باوجود انھیں ایک خوشحال، پاک صاف، ترقی یافتہ ماحول نصیب نہیں ہے۔ حالیہ بارش نے شہریوں کے برسوں پرانی آرزوئیں، ارمانوں کو بہالے گئی۔ اس تکلیف دہ حقیقت کے باوجود اگر حیدرآباد کے عوام ووٹ دینے میں غلطی کرتے ہیں تو اس مرتبہ میئر کا عہدہ حاصل کرنے کے لئے کوشاں پارٹی حیدرآباد شہر پر اپنے منصوبوں کو مسلط کرے گی۔ اس لئے مسلم رائے دہندوں کو جھانسہ بازوں سے چوکنا رہنا ہوگا۔
معاشی محاذ پر ہندوستان بہت کمزور
ہندوستان کی معیشت کو سال 2025 ء تک 5 ٹریلین امریکی ڈالر تک لے جانے کا نشانہ مقرر کرنے والے وزیراعظم نریندر مودی کو اب کئی مالیاتی شعبوں میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔ کورونا وائرس کی وباء نے کئی ملکوں کی معیشت کو تباہ کردیا ہے۔ آکسفورڈ کے ماہرین معاشیات نے بتایا ہے کہ دنیا کی بڑی معیشتوں میں ہندوستان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ آئندہ پانچ سال تک ہندوستان کی اہم پیداواری شرح 4.5 فیصد سے زائد نہیں ہوگی جوکہ کورونا وائرس سے قبل یہی شرح 6.5 فیصد تھی۔ مودی حکومت کی پالیسیوں اور مالیاتی صورتحال میں فرق پایا جاتا ہے۔ بینکوں کا نظام ٹھپ ہونے کا اندیشہ ظاہر کرنے والوں نے یہ بھی کہاکہ بینکوں کی بیالنس شیٹ ابتر صورتحال کو عیاں کرتی ہے۔ لیبر مارکٹ بھی کمزور ہوچکا ہے اس کی وجہ سے طویل مدت تک مارکٹ کو خوف کے سایہ سے گزرنا پڑے گا۔ گزشتہ ہفتہ ریزرو بینک آف انڈیا کی جانب سے ایک رپورٹ شائع کی گئی تھی اور پیشن گوئی کی گئی تھی کہ ایشیاء کی تیسری بڑی معیشت کو تاریخی کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان تمام پیش قیاسیوں اور مالیاتی ابتر حالات کے باوجود اگر مودی حکومت نے مالیاتی بحالی کے لئے مؤثر اقدامات نہیں کئے تو بحران کی بدترین شکل نمودار ہوگی۔ ہندوستانی عوام کو صرف خوش کن وعدوں سے بہلایا جاتا رہے تو سال 2025 ء تک ہندوستانی معاشی ترقی کو 5 ٹریلین ڈالر کردینے کا خواب بھی چکنا چور ہوجائے گا۔ ہندوستان کا عام شہری کئی مسائل کا شکار ہے۔ کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن نے ہر ایک شہری کی روز مرہ زندگی کو متاثر کیا ہے۔ معاشی ترقی کے جھوٹے ڈرامے بند کرکے ٹھوس اور کارکرد قدم اُٹھانے ہوں گے ورنہ مودی حکومت کی غلطیوں کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑے گا۔